بلدیاتی انتخابات کیا دیں گے؟ Urdu Share Tweetموجودہ حکومت کے دوسرے سیاسی اور انتظامی فیصلوں کی طرح بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ سیاستدانوں کے تذبذب اور ٹھوس فیصلہ سازی میں ناکامی کے پیش نظر ہر معاملے میں عدلیہ مداخلت کررہی ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران ریاستی معاملات میں عدلیہ کا کردار جتنا بڑھ گیا ہے اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر نحیف حکمران طبقے کے لئے فیصلے کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکمران دراصل عدلیہ کی مداخلت سے خوش بھی ہیں کیونکہ اس طریقے سے پیچیدہ معاملات تاخیر زدگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عدالتی اور ریاستی نظام میں اشرافیہ کی سہولت کے لئے رکھے جانے والے چور راستوں کی وجہ سے کیس ہمیشہ کے لئے التوا کا شکار ہو کر عوام کی یادداشت اور میڈیا کی سرخیوں سے غائب ہوجاتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں زیادہ تر بلدیاتی انتخابات جمہوری حکومتوں کی بجائے فوجی آمریتوں نے کروائے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود اور سماجی انفراسٹرکچرکے لئے مختص کئے جانے والے قلیل فنڈ ’جمہوری حکومتوں‘ کے وسیع سیاسی ڈھانچوں اور کثیر حصہ داروں کے سامنے کم پڑ جاتے ہیں۔ ریاستی منصوبوں پر ٹھیکیداری کے پیچیدہ نظام کے تحت عمل درآمد ہوتا ہے جس میں سیاستدانوں، افسر شاہی اور ٹھیکیداروں کو وسیع پیمانے کی لوٹ مار کے مواقع میسر آتے ہیں۔ ریاستی حکام اور ٹھیکیداروں کا باہمی ’’لین دین‘‘ اس ملک میں ہونے والی کرپشن کا سب سے بڑا ماخد ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک، ہر سطح پر اور ہر محکمے میں بدعنوانی کا یہ بازار گرم ہے۔ عوام کے لئے شروع کئے جانے والے منصوبوں سے مستفید ہونے والے ’’خواص‘‘ تو ارب پتی بن چکے ہیں جبکہ پانی، گیس اور بجلی کی فراہمی، سینی ٹیشن، سڑکیں، سکول، رہائش اور ہسپتال جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے والا سماجی انفراسٹرکچر تباہ حالی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ عوامی فلاح پر ہونے والے اخراجات کو کچھ دوسرے ’’اہم شعبوں‘‘ پر قربان کر دیا جاتا ہے اور بنیادی انفراسٹرکچر کے بجٹ میں کٹوتیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہونے والے ’’حکومتی اخراجات میں کمی‘‘کے فرمان کے پیش نظر صحت، تعلیم اور دوسری سہولیات کے فنڈز میں نہ صرف مزید کمی کی جارہی ہے بلکہ ان شعبوں کی نجکاری کے لئے بھی پر تولے جارہے ہیں۔ لاہور میں واسا کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کرنے سے پانی کے بلوں میں تین گنا تک اضافہ ہوچکا ہے۔فوجی حکومتوں میں ’’بنیادی جمہوریت‘‘ یا بلدیاتی نظام کی دوسری شکلیں دراصل آمریت کو سماجی بنیاد اور قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے متعارف کروائی جاتی رہی ہیں۔ اس طریقہ کار نے وقتی طور پر فوجی آمروں کو کچھ عوامی حمایت تو فراہم کی لیکن سماجی اور معاشی حالات میں کوئی بہتری نہ آنے کی وجہ سے عوام میں پھیلنے والے اشتعال نے جمہوری حکومتوں کی راہ ہموار کی۔ ماضی کی جمہوری حکومتوں کی طرح مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کی بلدیاتی انتخابات کروانے میں ہچکچاہٹ دراصل ممبران پارلیمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد حصہ داروں کی نئی کھیپ نظام کا حصہ بن جائے گی جس سے عام انتخابات میں بڑی سرمایہ کاری کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ’’عوامی نمائندوں‘‘ کے منافعوں کو ضرب لگے گی۔ تاہم ’’نیچے تک اقتدار کی منتقلی‘‘ کے دعووں کے برعکس بلدیاتی انتخابات بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہوتے ہیں جن میں صرف پیسے والے ہی حصہ لے سکتے ہیں۔ غریبوں کے پاس یہاں بھی صرف ووٹ دینے کا اختیار ہی ہوتا ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کی نفسیات اور مقاصد عام انتخابات میں حصہ لینے والے سیاستدانوں سے کسی طور پر مختلف نہیں ہوتے ہیں۔ محلے کے کونسلر سے لے کر ناظم تک، سب کا پہلا اور آخری مقصد اپنے اور اپنے ’خیرخواہان‘کے مالیاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ بالائی سطح پر اگر تعمیرات کے ٹھیکوں اور نوکریوں کی فروخت سے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں تو نچلی سطح پر سلائی مشینوں کی تقسیم سے لے کر اوقاف اور زکوٰۃ کے معاملات میں کرپشن کر کے جیبیں گرم کی جاتی ہیں۔معاشی اور اقتصادی طور پر متروک نظام پر جمہوریت کے کتنے ہی لبادے چڑھا دئیے جائیں عوام کے مسائل کم نہیں ہوسکتے۔ بستر مرگ پر پڑے ضعیف العمر مریض کے بالوں پر خضاب لگا دینے سے وہ جوان نہیں ہوجاتا۔ دائیں بازو کی موجودہ حکومت کے تمام تر اقدامات انتظامی ڈھانچوں میں بے معنی تبدیلیوں تک ہی محدود ہیں۔ ظاہریت پر توجہ دے کر اصلیت کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سماج پر حاوی سیاستدانوں اور دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کو کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ معاشیات اور سیاسیات میں بڑے بڑے سامراجی تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لینے والے یہ خواتین و حضرات شعوری یا لاشعوری طور پر ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کی حتمی و آخری منزل ہے اور اسی کی حدود و قیود میں رہ کر اصلاحات کی جاسکتی ہیں۔ مارکسزم اور سوشلزم کو ’’قدیم‘‘ سمجھنے والے یہ دانشور خود جس ’’نئے نظرئیے‘‘ پر عمل پیرا ہیں وہ دراصل تاریخ کے قدیم ترین نظریات میں سے ایک ہے۔ غلام داری ہو یا جاگیرداری، تاریخ کے افق پر نمودار ہونے والے ہر حکمران طبقہ اور ہر سامراج اپنے نظام اور حاکمیت حتمی و آخری سمجھ کر تاریخ کے خاتمے کا اعلان کرتا رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ تاریخ حکمرانوں کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتی!عالمی اور ملکی سطح پر معاشی زوال کی شدت میں اضافے سے سماجی اور سیاسی مسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔ ملک کے مالیاتی وسائل کا وسیع حصہ مقامی بینکوں اور سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کی نظر ہوجاتا ہے۔ جو کچھ بچتا ہے وہ جدید اسلحے کی خریداری، نئے ایٹم بموں اور میزائلوں کی تیاری اور فوجی افسر شاہی کی لوٹ ماری اور عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ سرکاری طور پر عوام پر خرچ ہونے والے فنڈ اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا زیادہ تر حصہ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد کرپشن کرنے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ پاکستان کے حکمران دنیا میں امیر ترین جب عوام غریب ترین ہیں۔ مٹھی بھرامراء کے مجموعی اثاثے ملک کے جی ڈی پی سے زیادہ ہیں اور دولت کا یہ ارتکاز بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ تاریخ میں کسی حکمران طبقے نے اپنی دولت، اقتدار اور مراعات کو رضاکارانہ طور پر ترک نہیں کیا ہے۔ انتخابات کسی بھی نوعیت کے ہوں، نظام کو چلانے کے لئے ہوتے ہیں، مٹانے کے لئے نہیں۔ امریکی محنت کشوں کی دبنگ رہنما ایما گولڈمین کے الفاظ میں ’’اگر انتخابات سے کچھ تبدیل ہوسکتا تو حکمران ان پر پابندی لگادیتے۔‘‘بلدیاتی کونسلز اور لوکل باڈیز اسی استحصالی معاشی نظام کا سیاسی ادارہ ہیں جن سے امیدیں وابستہ کرنا خوش فہمی کے مترادف ہے۔ محکوم اور استحصال زدہ عوام سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی زنجیریں توڑ کر ہی سیاسی میدان میں سرگرم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہر سطح پر معاشی طور پر مراعت یافتہ اور طاقتور طبقے سے نجات حاصل کر کے ہی حقیقی جمہوری پنچائیتیں یا کونسلیں قائم کی جاسکتی ہیں۔ حقیقی جمہوریت ایک ایسے مساوی معاشرے میں ہی قائم ہوسکتی ہے جہاں ذرائع پیداوار اور سماجی دولت چند افراد کی بجائے پورے معاشرے کی اشتراکی ملکیت ہوں۔ بالشویک انقلاب کے قائد ولادیمیر لینن نے تقریباً سو سال پہلے کہا تھا کہ ’’جب تک سماج میں طبقات کا وجود باقی ہے ہم ’’خالص جمہوریت‘‘ کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ۔ ۔ ’خالص جمہوریت‘ ان لبرل دانشوروں کی پرفریب لفاظی ہے جو محنت کش طبقے کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ انتہائی جمہوری سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی محکوم عوام کو ہر قدم پر سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ’رسمی برابری‘ اور محنت کشوں کو اجرتی غلام بناڈالنے والی حدود و قیود کے درمیان تضادات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جسے سوشلسٹ بے نقاب کر یں گے تاکہ عوام کو انقلاب کے لئے تیار کیا جاسکے۔‘‘Source