تھائی لینڈ: ”عوام جاگ اٹھے ہیں“؛ احتجاجوں سے حکومت پسپا Share Tweetدیوہیکل احتجاجی تحریک نے تھائی لینڈ کے سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں جس نے حکومت کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ فوجی حکومت (جس کا دفاع بادشاہت اور بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام دونوں کر رہے ہیں) کا خاتمہ کرنے کے لیے اس تحریک کے صف اول میں موجود جوانوں کو محنت کش طبقے تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔[Source]تھائی لینڈ کو پچھلے پانچ مہینوں سے عوامی احتجاجوں نے ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ تھائی حکومت کو ایک ہی وقت میں آپس میں جڑے ہوئے متعدد بحرانوں کا سامنا ہے۔ معیشت بہت بری حالت میں ہے۔ جیسا کہ ’دی اکانومسٹ‘ نے اپریل میں نشاندہی کی تھی، کورونا کے اثرات سے پہلے بھی 2019ء میں شرحِ نمو پچھلے پانچ سالوں کی کم ترین سطح پر تھی۔ ہم نے حال ہی میں بتایا تھا کہ تھائی لینڈ کو چین اور جنوبی کوریا کی طرح ’مڈل انکم ٹریپ‘ کا سامنا ہے، جب بڑھتی ہوئی تنخواہوں کی وجہ سے مزید سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوتی مگر پیداوار بھی اتنی نہیں ہوتی کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں جیسے مزدا اور جی ایم نے پیداوار کو ملک کے باہر منتقل کر دیا ہے۔ کورونا وائرس نے مسائل کو مزید شدید کیا ہے۔ ملک کا سیاحت پر بڑا انحصار ہے جو جی ڈی پی کا 20 فیصد بنتا ہے۔ لاکھوں لوگ ابھی سے بیروزگار ہو رہے ہیں اور مرکزی بینک پیشین گو ئی کر رہا ہے کہ 2020ء میں معیشت 8 فیصد سکڑ جائے گی۔مزید برآں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دس فیصد آبادی 2.85 ڈالر یومیہ پر زندگی گزار رہی ہے، جبکہ خاندانی قرضے جی ڈی پی کے 80 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جو ایشیا کی سب سے بڑی شرح ہے۔ تقریباً 40 فیصد تھائی آبادی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ چنانچہ ایک بڑی اکثریت، خصوصاً نوجوانوں کیلئے روشن مستقبل کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔اکتوبر14 اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے گورنمنٹ ہاؤس کی طرف مارچ کیا۔ انہوں نے پولیس کی قطاروں کو چیرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کر لیا اور وزیراعظم پریوت چن اوچا سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔اسی دن بادشاہ کی بیوی ملکہ سودیتا کو عالی شان لیموزین گاڑی میں مظاہرین کے قریب سے گزرنا پڑا۔ اسے متوقع استقبال نہیں ملا، جس طرح عموماً شاہی خاندان کا ہوتا ہے۔ مظاہرین نے بیباکی سے تین انگلیوں والا سیلوٹ بلند کیا جو ہالی ووڈ فلمی سلسلے ’دی ہنگر گیمز‘ سے لیا گیا ہے اور پورے ملک میں بغاوت کا نشان بن چکا ہے۔ کچھ نے تو درمیانی انگلی دکھا کر گالی بھی دی اور بعض نے ”میرے ٹیکس کے پیسے“ کے نعرے لگائے۔ ملکہ صاحبہ ”جاہل عوام“ کی موجودگی سے پریشان ہو گئی اور اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، ملکہ آنکھوں میں آنسو لیے گاڑی سے باہر دیکھتی ہوئی نظر آئی۔ایسا شدید عوامی رد عمل قابلِ فہم ہے کیونکہ تھائی لینڈ میں اب تک بادشاہت کی کھلی تنقید کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ بورژوا پریس اسے ’حرام‘ قرار دیتا ہے۔ در حقیقت یہ ’حرام‘ اس لیے تھا کیونکہ کسی بھی قسم کی تنقید کو حکومت کی طرف سے جابرانہ طور پر دبا دیا جاتا تھا۔ تھائی لینڈ میں اس حوالے سے سخت قوانین نافذ کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں 15 سال تک جیل ہو سکتی ہے۔ 2014ء کے ’کو‘ کے بعد نو جلا وطن تھائی شہریوں کو بادشاہت یا فوج پر تنقید کی پاداش میں غائب کیا گیا، (اور جس طرح ہم نے پہلے لکھا ہے) جن میں سے دو کی لاشیں 2018ء میں میکونگ دریا سے ملیں۔ ان کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں بندھے ہوئے، پیٹ چاکے ہوئے تھے اور جسم کے اندر کنکریٹ بھرا ہوا تھا۔حکومت نے ملکہ کا دفاع کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ ”اس عمل کے جواب میں جس نے شاہی کاروان کو خطرے میں ڈالا“، اگلی صبح پریوت نے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ پانچ یا زیادہ لوگوں کا ملنا، اور ان چیزوں کی رپورٹنگ کرنا جو ”ملکی سیکورٹی کو نقصان پہنچائے“ یا جس سے ”ہنگامہ جنم لے“ ممنوع قرار پایا۔ تین لوگوں پر ”ملکہ کی آزادی پر حملے“ کے فرد جرم بھی عائد کیے گئے۔البتہ بہت سے لوگوں کے دلوں سے وہ خوف مٹ گیا ہے جو انہیں چپ رہنے پر مجبور کرتا تھا۔ ایک یونیورسٹی پروفیسر ٹائٹیپول پکدیوانچ نے وضاحت کی کہ مظاہرین ”کو کوئی ڈر نہیں۔۔۔اب انہوں نے ریاست کی قوت کو للکارنے کا تہیّہ کر لیا ہے۔“ اگلے دن نئے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بینکاک میں 2000 کے قریب مظاہرین جمع ہوئے اور انہوں نے سڑکیں بند کرتے ہوئے ”ہمارے دوستوں کو رہا کرو“ کے نعرے لگائے۔نئے قوانین احتجاجوں کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان کو منظم کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی کا باعث بنے۔ ہانگ کانگ کی تحریک سے سیکھتے ہوئے مظاہرین نے پہلے سے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے 30-60 منٹ کے مختصر نوٹس پر احتجاج منظم کرنا شروع کر دیے تاکہ پولیس کی رکاوٹوں سے بچا جا سکے۔ قائدین نے پولیس کو فریب دینے کے لیے اپنی زبان بھی تخلیق کر دی جس میں ’بروکولی‘ کا لفظ فوجیوں کے لیے اور ’کیپوچینو‘ کا لفظ پولیس کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔انتظامیہ نے مظاہروں کے جواب میں کریک ڈاؤن کی کوششیں کی۔ پولیس نے واٹر کینن میں ایسے کیمیکل جن سے جلن ہوتی ہے، اور نیلا رنگ ملا دیا تاکہ مظاہرین کو بعد میں پہچانا جا سکے۔ مظاہرین نے، جن میں سے کچھ سکول یونیفارم میں ملبوس کم عمر بچے بھی تھے، اپنی حفاظت کے لیے ہیلمٹ پہننا اور چھتریوں کا استعمال شروع کر دیا۔ایمرجنسی نافذ ہونے کے 12 گھنٹے بعد صورتحال کچھ یوں تھی کہ مظاہرین رتچاپراسونگ چوراہے سے پولیس کو پیچھے دھکیل رہے تھے جو بینکاک کے وسط میں واقع ہے۔ پولیس نے ایمرجنسی قوانین پڑھتے ہوئے علاقے کو خالی کرنے کی کوشش کی، جس کا جواب حقارت آمیز جملوں اور تین انگلیوں والے سیلوٹوں کے ایک بڑے سمندر نے دیا۔کریک ڈاؤن نے مظاہرین میں خوف پھیلانے کی بجائے ان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا۔ جسے مارکس نے ”رد انقلاب کا کوڑا“ کہا تھا، نے آنے والے دنوں میں مظاہروں کی تعداد مزید بڑھا دی۔ تحریک میں انقلابی عنصر بھی شدید ہوتا گیا اور مظاہرین نے ”دیس ہے کس کا؟ ہم لوگوں کا!“ کے نعرے لگائے۔حکومت کی پسپائیاس مرحلے پر حکومت واضح طور پر پریشان ہو چکی تھی۔ انہوں نے ’پیلی شرٹس‘ کو متحرک کرنے کی کوشش کی، جو بادشاہت کی حامی ایک تحریک ہے اور جو 2006ء میں تاکسن شینا وترا کی حکومت کو ختم کرنے والے ’کو‘ میں ملوث تھی۔ البتہ یوں دکھائی دے رہا تھا کہ حکومت کی متحرک کی ہوئی پیلی شرٹس کی اکثریت ریاستی ملازمین اور فوجیوں پر مشتمل تھی۔ اپنے دفاع کرنے کے لیے ریاست کے پاس مطلوبہ حمایت نہیں تھی، سو انہوں نے اس غرض کے لیے لوگوں کو پیسے دینے شروع کر دیے۔ اطلاعات کے مطابق ان ملازمین سے بری طرح پیش آیا گیا اور انہیں کوڑے کرکٹ کی خالی شدہ گاڑیوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں سے بعض نے حکومت سے ناراضگی کا کھل کر اظہار بھی کیا جنہیں تین انگلیوں والے سیلوٹ بلند کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔حکمران طبقہ واضح طور پر اپنی حمایت کی بڑی سماجی بنیادیں کھو چکا ہے۔ احتجاجی تحریک کے قائدین میں سے کئی درحقیقت سابقہ پیلی شرٹس خاندانوں سے آئے ہیں۔ بوسیدہ نظامِ حکومت سے نفرت کا اظہار نوجوانوں کی بول چال میں بھی ہوتا ہے۔ عمر رسیدہ پیلی شرٹس والوں کو بطورِ تحقیر ’سالم‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے جو نوڈلز سے بننے والی ایک سویٹ ڈش ہے اور جو دکھنے میں دماغ جیسی لگتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بادشاہت کے حامی ان عمر رسیدہ لوگوں کے دماغ ان کے کانوں سے باہر ٹپک رہے ہیں۔ ’بیڈ سٹوڈنٹ‘ نامی ایک تحریک کا بھی جنم ہوا جس میں شریک سکول کے بچے (جن میں 10 سال تک کے بچے شامل تھے) خود کو طنزاً برے شاگرد کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ استاد کے ہاتھوں مار پٹائی سے انکار کرتے ہیں۔ اس سال سکولوں میں ایک اور روایت بھی بن گئی جب سکول شروع ہونے سے پہلے حکومت کی جانب سے لازم قرار دیے گئے قومی ترانہ گانے کے دوران سکول کے بچوں نے تین انگلیوں والے سیلوٹ بلند کرنے شروع کر دیے۔ دنیا بھر میں جاری دیگر تحریکوں کی مانند ادھر بھی ایک نئی انقلابی نسل دیکھنے کو مل رہی ہے جو جبر سے لاپرواہ ہو کر تبدیلی کا مزید انتظار نہیں کر سکتی۔اس پریشان کن حالات نے پریوت کو کافی مصالحانہ انداز اپنانے پر مجبور کر دیا۔ وہ فوجی آمریت جس کی جانب ماضی میں میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا، عوامی تحریک کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئی۔ پریوت نے مظاہرین سے التجا کی کہ اپنی سیاسی اظہارِ رائے کی آزادی کو قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے استعمال کریں اور چونکہ انہوں نے اپنے مطالبات سامنے رکھ دیے ہیں، لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومتی نمائندوں کے ذریعے تھائی معاشرے کے دیگر اداروں سے مصالحت کی جائے۔اس نے تسلیم کیا کہ تحریک کی جانب سخت رویہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔ ایک انقلابی یا قبل از انقلابی صورتحال بن چکی ہے۔ ایک طرف یہ خوف ہے کہ جابرانہ حملوں سے تحریک مزید انقلابی ہو جائے گی۔ دوسری جانب یہ ڈر کہ رعایت برتنے سے ایسا ہوگا۔ ایک طرح سے یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ پریوت کی تقریر کے دوران سینکڑوں مظاہرین نے پولیس کی قطاروں کو دوبارہ توڑا اور گورنمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کر لیا۔آخرکار عوامی تحریک کی قوت سے مجبور ہو کر پریوت کو ایمرجنسی ہٹانی پڑ گئی اور اس نے اعتراف کیا کہ واٹر کینن کے استعمال کے ذریعے تھائی لینڈ کو ایک بہتر سماج میں نہیں بدلا جا سکتا۔پریوت کو جس مشکل کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں سے جمہوریت کی تعمیل کرنے کی اپیل سے واضح طور پر منافقت کی بدبو آتی ہے۔ یہ پریوت ہی تھا جس نے 2014ء کے ’کو‘ کی قیادت کی تھی۔ مزید برآں پچھلے الیکشن کے دوران پریوت اس فوج کا سربراہ تھا جس نے الیکشن کے لیے قواعد و ضوابط خود لکھے تھے۔ دوسری بڑی اپوزیشن پارٹی کو دوران الیکشن تحلیل کیا گیا تھا اور اس کے باوجود کہ بر سرِ اقتدار فوج کی مخالف پارٹیوں نے دگنا ووٹ حاصل کیا تھا، فوج اب بھی حکومت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ فوج تھائی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے کل 250 ممبران کو خود تعینات کرتی ہے جو حکومتی پالیسی کو روکنے اور منتخب حکومتوں کو ہٹانے کا اختیار رکھتا ہے۔’کو‘ کے امکانات؟بظاہر حکومت اور مظاہرین کے بیچ کوئی متفقہ حل نظر نہیں آ رہا، جس کی وجہ سے ایک نئے ’کو‘ کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ تھائی اخبارات اور شاہی فوج کا کہنا ہے کہ یہ بڑا ”شرمناک“ ہوگا اگر 1976ء میں تامساٹ یونیورسٹی کے اندر ہونے والے قتل عام کو دہرایا گیا۔ سوندھی لمتونگکل، جس کو نیویارک ٹائمز ”ممتاز شاہ پرست“ مانتا ہے، کا کہنا ہے کہ’کو‘ ”کوئی بری شے نہیں“، اور اکتوبر کے آخر میں اس نے فوج سے مداخلت کرنے کی درخواست کی تاکہ استحکام کو لوٹایا جا سکے اور بادشاہت کی حفاظت کی جا سکے۔ اس دوران جنرل نرونگپان جٹکائی ٹائی کا کہنا تھا کہ ”جب تک ایسے گروہ موجود نہ ہوں جو حالات کو ’کو‘ کے لیے سازگار کر دیں یا پر تشدد تصادم کو جنم دیں، ’کو‘ کا ہونا ناممکن رہے گا۔“تھائی لینڈ میں ’کو‘ کی ایک لمبی تاریخ ہے جن کا جواز عموماً بادشاہت کی حفاظت پیش کیا جاتا ہے۔ بورژوا تھنک ٹینک ’دی لووی انسٹیٹیوٹ‘ کا کہنا ہے کہ تھائی فوج کا کام ”استحکام برقرار رکھنا“ ہے، جو میدان میں تب اترتی ہے جب ”اہم قومی مفاد خطرے میں ہو، جیسا کہ جاری اندرونی اختلافات کے وقت یا جب بادشاہت کو خطرہ ہو۔“ قومی مفاد سے ان کی مراد حکمران طبقے کے اس دھڑے کے مفادات ہیں جو ابھی بر سرِ اقتدار ہے۔ ایسے حالات میں فوج کے لیے ’کو‘ کی جانب پیش قدمی کرنا کافی پر خطر ہوگا جب ان کی حمایت کی سماجی بنیادیں ختم ہو چکی ہیں۔ اس سال تحریک کو کچلنے کی ہر کوشش نے اس کو مزید توانائی بخشی ہے۔ اس لیے ’کو‘ کی جانب بڑھنا مظاہرین کو مزید اشتعال دلا سکتا ہے جس سے خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے، اور جس کو جیتنے کے بارے میں فوج یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔بادشاہجیسا کہ ہم نے نشاندہی کی ہے، بادشاہت کا سوال اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بالکل بیہودہ بات ہے کہ جہاں ایک طرف تھائی لوگوں کی بڑی اکثریت بمشکل خود کو زندہ رکھ رہی ہے، وہیں دوسری جانب ان کا بادشاہ ناقابلِ یقین حد تک عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ وہ دنیا کے امیر ترین بادشاہوں میں سے ایک ہے جس کی سرمایہ کاری کا اندازہ 40 بلین ڈالر کا لگایا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں، 2021ء کے مالی سال میں حکومتی بجٹ کا 37 بلین بھات (1.1 بلین ڈالر سے زیادہ) بادشاہت کے لیے مختص کیا جا چکا ہے۔ شاہی دفتر کو اس میں سے 9 بلین بھات براہ راست موصول ہوئے۔ جہاں بہت سے تھائی لوگوں کے لیے تین وقت کا کھانا میسر نہیں، وہیں بادشاہ کی دولت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔البتہ سوشلسٹوں اور مارکس وادیوں کے بادشاہت کی مخالفت کرنے کی وجہ محض مذکورہ نا انصافی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بادشاہت ’کو‘ اور محنت کش طبقے کے اوپر مظالم کے لیے جواز فراہم کرتی ہے۔ اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے دنیا بھر کی بادشاہتیں دکھاوے اور رسم و رواج کے پردوں میں چھپی ہوتی ہیں۔ تھائی لینڈ میں بھی ایسا ہی ہے۔ وزیراعظم اور دیگر حکومتی افسران کو بادشاہ کے سامنے سجدہ ریز ہونا پڑتا ہے۔ شاہی خاندان تھائی زبان کی مخصوص خفیہ قسم کو استعمال کرتا ہے اور ریاست نے سالوں تک ایسی کہانیاں پھیلائی ہیں جس میں شاہی خاندان کو خدائی طاقتوں کا مالک بتایا گیا۔ اس سب کا مقصد بادشاہت کے ادارے کو مہربان اور نرم دل بنا کر پیش کرنا ہے جو تھائی سماج کے چھوٹے مفادات سے بالاتر ہے اور جو سب لوگوں کا نمائندہ ہے۔ جب تک ایسا سمجھا جائے گا، تب تک فوج کو جواز فراہم ہوتا رہے گا کہ ان قائدین کے خلاف ’کو‘ کرے جس سے بادشاہت کو خطرہ ہو۔بظاہر یوں دکھائی دے گا کہ سب طاقت بادشاہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہے، مگر درحقیقت یہ فوج اور سرمایہ داروں کا ایک دھڑا ہی ہے جو تھائی لینڈ پر حکمرانی کرتا ہیں۔ ماضی میں بادشاہت کا ادارہ نظامِ حکومت کے لیے کچھ نہ کچھ جواز فراہم کرتا رہا ہے۔ البتہ گزرتے وقت کے ساتھ یہ غیر منطقی معلوم ہونے لگا ہے۔ پچھلے بادشاہ کو پھر بھی کچھ نہ کچھ حمایت حاصل تھی مگر بادشاہ ماہا کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ حکمران طبقے کو ایک با وقار اور شریف بادشاہ کی ضرورت ہے جو سب تھائی لوگوں کو متحد کر سکے مگر موجودہ بادشاہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ وہ جرمنی میں رہتا ہے جسے اکثر پبلک میں چھوٹی شرٹیں پہنے اور عارضی ٹیٹو بنوائے دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اسے اپنی ذات کے علاوہ کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں۔ 14 اکتوبر کو دی اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک خبری نے کہا کہ؛ ”بائیک چلانا، جنسی شہوت پورا کرنا اور کھانا۔ وہ محض یہی تین کام کرتا ہے۔“ جب کبھی وہ سیاست میں مداخلت کرتا بھی ہے تو کوئی بھلے کا کام نہیں کر پاتا، جیسا کہ ایک دفعہ اپنے کتے فو فو کو ائیر چیف مارشل بنا دیا تھا۔تھائی سماج میں اپنی بنیادیں کھو جانے کی وجہ سے فوج اور بادشاہت کے تعلقات کو خارجہ پالیسی کی اصطلاح میں ”باہمی بقا کا معاہدہ“ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جس طرح لووی انسٹیٹیوٹ نے نشاندہی کی، نئے بادشاہ کی شخصیت پر تحفظات کے باوجود فوج اس کے پیچھے کھڑے ہونے پر مجبور تھی کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ کئی حوالوں سے اپنی قسمت کا مالک نہیں ہے کیونکہ حالات کا فائدہ اٹھانے والے حکمران طبقے کا دھڑا اور فوج کے تناظر سے شاہی خاندان کے مفاد کو قومی مفاد سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تھائی لینڈ میں بادشاہت پر تنقید کرنا اتنا خطرناک کیوں ہے۔ اس تنقید کا مطلب سٹیٹس کو پر تنقید ہے، جس پر پورا نظام کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکمران اشرافیہ اس کے لیے کوئی بھی گنجائش نہیں دیتی۔آئین#17 نومبر بروزِ منگل کو تحریک کے قائدین میں سے ایک، آرنن نمپا نے حامیوں سے اپیل کی کہ پارلیمنٹ کے باہر جمع ہو کر آئین میں ترمیم کا مطالبہ کریں۔ اس نے مظاہرین سے گزارش کی کہ ٹوپی پہن کر اور چشمے لگا کر آئیں، اور اگر کسی کے پاس کشتیاں ہیں تو وہ بھی لے کر آئیں، کیونکہ حکومتی عمارت دریا کے کنارے واقع ہے۔ دریا پار کرنے کے لیے مظاہرین کو ربڑ کے بنے بڑے بڑے بطخ دیے گئے۔مظاہرین کو تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک کے سب سے بد ترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ پیلی شرٹس والوں کو مظاہرین کو روکنے کی اجازت دی گئی۔ تین مظاہرین کو گولی مار دی گئی، البتہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ پولیس کا کرنا تھا یا پیلی شرٹس کا۔ مجموعی طور پر 55 افراد زخمی ہوئے۔وزراء آئین کے سات مختلف نقاط میں ترمیم پر بحث کر رہے تھے جن میں سے کچھ نقاط حکومت کے حامی وزراء کی جانب سے بھی شامل کیے گئے تھے۔ تحریک کی جانب سے پیش کیے گئے پروگرام کے تحت، جس پر ایک لاکھ لوگوں نے دستخط کیے تھے (اگرچہ منتظمین کو پچاس ہزار کی توقع تھی)، بادشاہ کا دائرہ اختیار محدود ہو جاتا۔ اس میں 250 سینیٹرز کی جگہ منتخب نمائندوں کو لانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ اپوزیشن اور حکومتی پارٹیوں کی جانب سے پیش کی گئی دو ترامیم پر ووٹنگ کی گئی مگر اس کو منظور نہیں کیا جا سکا۔اس پارلیمنٹ میں جس کے اندر فوج کا غلبہ ہو، ایسی اصلاح کو منظور کرانا ممکن نہیں تھا۔ جیسا کہ شاہ پرست قائد وارونگ نے کہا: ”آئین میں ترمیم کرنا بادشاہت کے خاتمے کا سبب بنے گا۔“ فوج نے بھی واضح طور پر کہا کہ ”اس کی گنجائش بالکل نہیں۔“آگے کیا ہوگا؟آئین میں ترمیم کے رُک جانے سے ایک دفعہ پھر عوامی غصّے کو اشتعال ملا۔ ٹرک کے اوپر کھڑے ہو کر آرنن نمپا نے کہا: ”اگر اصلاحات نہیں کی گئیں تو ایک دن ہم بغاوت پر اتر آئیں گے۔“ بعد میں دیے گئے انٹرویو میں اس نے نشاندہی کی کہ: ”اگر کوئی گھر بوسیدگی کی حدیں پار کر چکا ہو تو ہمیں اس کی مرمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ہمیں پارلیمنٹ کے ذریعے بادشاہت میں اصلاحات کرنے کی کوئی امید نہیں۔“ ہمارے مطابق بھی آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ تھائی نظامِ حکومت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ اس میں اصلاحات کرنا ممکن نہیں، واحد راستہ انقلاب کے ذریعے اس کی جڑیں اکھاڑ پھینکنا ہی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے؟ تحریک نے ناقابلِ یقین بہادری اور قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جابرانہ حملوں اور متعدد قائدین کی گرفتاری کے باوجود یہ پانچ مہینوں سے جاری ہے۔ البتہ ہر چیز کی اپنی حدیں ہوتی ہیں۔ واضح کامیابی نہ دکھنے کے باوجود عوام قائدین کی اپیل پر کب تک لبیک کہیں گے؟ مسئلہ یہ ہے کہ بڑے مظاہروں کے باوجود ان میں محنت کش طبقے کی سرگرم شمولیت ابھی تک نہیں ہوئی۔ محنت کش طبقہ سماج کا واحد انقلابی طبقہ ہے کیونکہ سماج کی ساری طاقت اس کے ہاتھوں میں ہے، اگرچہ فی الحال وہ اس سے بے خبر ہے۔ اگر انہیں ایک انقلابی پروگرام کے گرد منظم کیا جائے تو وہ تھائی لینڈ کو منجمد کر کے رکھ سکتا ہے۔بعض جگہوں پر محنت کشوں نے شمولیت کی بھی ہے۔ مثلاً کچھ رپورٹوں کے مطابق چونبری کے اندر ہزاروں صنعتی مزدور تحریک میں شریک ہوئے۔ جیسا ہم نے بتایا بھی تھا کہ، 14 اکتوبر کو مظاہرین نے عام ہڑتال کی کال دی تھی۔ بد قسمتی سے اس کی تیاری نہیں کی گئی تھی اور اس لیے وہ نہیں ہو سکی۔اگر محنت کش طبقے کو تحریک میں شامل کرنے کے اقدامات نہیں لیے گئے تو تحریک کی ناکامی کے کافی امکانات موجود ہیں۔ اس حوالے سے فارن پالیسی جریدے نے تناظر پیش کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ طلبہ تحریک کو مزید وسعت نہیں دے سکتے، وہ انتظار کرنے لگ جائیں گے اور امید کریں گے کہ احتجاجی سلسلہ خود بخود ناکام ہو کر ختم ہو جائے گا۔ اگر تحریک تھکاوٹ کی وجہ سے ختم ہونا شروع ہو گئی تو ہمیں جابرانہ کریک ڈاؤن دیکھنا پڑے گا۔ پریوت نے پچھلے دنوں میں پہلے سے ہی دھمکی دے دی تھی کہ وہ مظاہرین کے خلاف ”تمام قوانین، تمام شقوں“ کو استعمال کرے گا۔18 نومبر کے احتجاج کا مرکزی نعرہ تھا ”اگر ہم جلیں گے، تم ہمارے ساتھ جلو گے۔“ البتہ تحریک کو جل جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تھائی لینڈ کے عوام انقلابی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر مظاہرین محنت کش طبقے کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے سیاسی کمپئین کا آغاز کر دیں تو وہ بادشاہت سمیت اس رجعتی نظامِ حکومت کا بھی خاتمہ کر سکتے ہیں۔واپس لوٹنا ممکن نہیںچاہے اس تحریک کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پرانے معمول پر واپس لوٹنا ممکن نہیں رہا۔ شعور میں گہری تبدیلی رونما ہوچکی ہے اور تھائی لوگوں کی اکثریت، خصوصاً نوجوانوں نے کافی اسباق حاصل کیے ہیں۔ 23 سالہ پیراکارن کا کہنا تھا ”اگر تم مجھے تین مہینے پہلے ملتے تو دیکھتے کہ مجھے ہمیشہ سے سیاست میں دلچسپی نہیں تھی۔۔۔اب مجھے سمجھ آ رہا ہے کہ ہمارا متحرک ہونا کیوں ضروری ہے۔ ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی۔“ دی گارڈین نے 22 سالہ تھانیسورن سے انٹرویو لیا جس کا کہنا تھا کہ ”ہمارے پاس ہتھیار نہیں، ہمارے پاس فوج نہیں۔۔۔مجھے لگا کہ مجھے باہر آ کر انہیں بتانا چاہیے کہ میں ان سے نہیں ڈرتا۔ ہم ان سے زیادہ طاقتور ہیں۔ عوام جاگ اٹھے ہیں۔ جھوٹے اور غلیظ پروپیگنڈے کا زمانہ اب گزر چکا ہے۔“ یہ ایک نئی نسل ہے جو تھائی ریاست کی قوت سے متصادم ہے اور وہ اس طاقت کو جان چکی ہے جس کی وہ مالک ہے۔ ان حالات سے واپس لوٹنا ممکن نہیں ہے۔تھائی لینڈ ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر ایک انقلابی نسل پروان چڑھ رہی ہے، جو پرانے نظام کو للکارنے کے لیے تیار ہے۔ دنیا بھر کے کارکنوں، بشمول نائجیریا اور بیلاروس، نے تحریک کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ لڑائی کی ہمت اپنی جگہ پر موجود ہے، مگر یہ قیادت کا کام بنتا ہے کہ صحیح راستہ چن کر انقلابی جدوجہد کا آغاز کرے تاکہ خستہ حال سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی وجہ سے قائم بوسیدہ اداروں کو ختم کیا جا سکے۔