نیٹ فلِکس سیریز ’سکویڈ گیم‘: سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کی تصویر کشی Share Tweetجنوبی کوریا کی حالیہ پروڈکشن سکویڈ گیم شاندار طریقے سے سرمایہ داری کی تلخ حقیقت، یعنی شدید مقابلہ بازی کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک جانب یہ نیٹ فلِکس کی مقبول ترین سیریز بن چکی ہے جبکہ دوسری جانب کوریا کے محنت کش عام ہڑتال کی تیاری کر رہے ہیں۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںڈائریکٹر ہوانگ دونگ ہیوک کی مشہور ترین فرضی ٹی وی سیریز سکویڈ گیم میں مقروض افراد اپنی جان پر کھیل کر بڑی دولت کا انعام جیتنے کے مقابلے میں حصّہ لیتے ہیں، جس میں ہارنے والوں کو مرنا پڑتا ہے۔شاندار اداکاری اور تشدد دکھانے کے ساتھ ساتھ سکویڈ گیم سرمایہ داری کی حقیقی وحشت اور تکلیف دہ اموات سے بھی پردہ ہٹاتی ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ اسے بڑے پیمانے پر دیکھا جا رہا ہے اور میڈیا میں بھی اس کے حوالے سے کافی بحث ہو رہی ہے، حتیٰ کہ برطانوی میڈیا میں بھی۔نیٹ فلِکس کی اس مقبول ترین سیریز میں (جو ابھی 90 ممالک میں پہلے نمبر پر ہے) سینکڑوں غربت زدہ کوریائی لوگوں کو جان لیوا مقابلہ بازی کے سلسلے میں حصّہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس کے جیتنے کا انعام 30 کروڑ پاؤنڈ ہوتا ہے۔ سیریز میں، مقابلہ بازی میں شامل افراد کی سرمایہ داری کے تحت اذیتوں سے بھری زندگی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جو جیتنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں۔مایوس کن زندگیشو کا آغاز مرکزی کردار سیونگ جی ہن متعارف کرانے سے ہوتا ہے، جب اس کی زندگی جوے کے قرضوں اور خراب خاندانی تعلقات کے باعث بد حال ہوتی ہے۔ جب ایک اجنبی اسے بہت بڑے انعام کا لالچ دے کر مقابلے میں حصّہ لینے کی دعوت دیتا ہے، وہ اس اچھی پیشکش سے انکار نہیں کر پاتا۔شرکاء کی آپسی مقابلہ بازی کو مزید شدید کرنے کے لیے کھیل کے ہر وحشیانہ مرحلے کے بعد مصنوعی طور پر قلت پیدا کی جاتی ہے۔خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم کی جاتی ہے، تشدد کو اشتعال دلایا جاتا ہے اور دھوکہ دہی کا انعام دیا جاتا ہے۔ شرکاء میں تعصب کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے جب وہ نسل، صنف اور عمر کو ترجیح دے کر دھڑا بندی کرتے ہیں۔ مارکس کے الفاظ سچے معلوم ہوتے دکھائی دیتے ہیں:’’جب قلت عام ہوتی ہے، تب تمام پرانی خباثتیں دوبارہ زندہ ہو جاتی ہیں۔“کھلاڑیوں کے پاس مقابلہ ترک کرنے کی آزادی ہوتی ہے، اگر اکثریت اس کے حق میں ووٹ ڈالے۔ مگر یہ آزادی بورژوا جمہوریت کی طرح ایک سراب ہی ہوتا ہے۔جب شرکاء کو اپنی معمول کی زندگی میں واپس لوٹنے کا موقع دیا جاتا ہے تو روازنہ کے تلخ حقائق ان کے سامنے آ جاتے ہیں جن سے وہ فرار حاصل نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ایک اداس کردار کہتا ہے، زندگی ”باہر بھی اتنی ہی خراب ہے جتنی کہ یہاں“۔اصولوں کا نفاذ ماسک پہنے مسلح افراد کرتے ہیں، جن میں اختیارات کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ وہ تشدد پر مکمل اجارہ داری قائم رکھتے ہیں، جو پستولوں اور مشین گنوں کے ذریعے ان کھلاڑیوں کو سزائے موت دیتے ہیں جنہوں نے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہو یا کھیل کے کسی مرحلے میں ہار چکے ہوں۔ کوریائی حکمران طبقے کے مسلح جتھوں سے ان کی مشابہت کو نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔مگر فرضی کہانی اور حقیقت کے بیچ مماثلت محض اتفاق کی بات نہیں۔ جیسا کہ ڈائریکٹر ہوانگ دونگ ہیوک کا کہنا تھا: ”میں ایسی کہانی لکھنا چاہتا تھا جو جدید سرمایہ دارانہ سماج کے ساتھ مشابہت رکھتی ہو، جو حقیقی زندگی کی شدید مقابلہ بازی کی عکاسی کرتی ہو۔“پردے کے پیچھےکوریائی حقیقت نگاری کے بڑھتے ہوئے مجموعے میں سکویڈ گیم ایک اور اضافہ ہے، ’دی ہوسٹ‘ اور ’پیراسائٹ‘ جیسی فلموں میں بھی جنوبی کوریا کے طبقاتی استحصال کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ غیر حقیقی مناظر دکھانے کے باوجود، سکویڈ گیم جنوبی کوریا کے محنت کشوں کو حقیقی زندگی میں درپیش کٹھن مادی حالات کی درست عکاسی کرتی ہے۔1997ء کے بعد 2020ء میں جنوبی کوریا کے اندر بے روزگاری کا سب سے بد ترین بحران دیکھنے کو ملا۔ جنوبی کوریا میں ایک دہائی سے روزگار کے مواقعوں میں مسلسل کمی ہوتی رہی ہے، جس میں کرونا وباء نے مزید تیزی لائی ہے۔ نوجوانوں کے بیچ بے روزگاری کی شرح 9.5 فیصد ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ کوریائی نوجوان اپنے وطن کو ”جہنم جیسا کوریا“ کہہ رہے ہیں۔جنوبی کوریا کے نوجوان اور محنت کش بڑی عمر اور ریٹائرمنٹ سے بھی امیدیں وابستہ نہیں کر سکتے۔ برطانیہ میں 66 سال سے زائد عمر رکھنے والے افراد میں سے ’محض‘ 15 فیصد غربت میں رہ رہے ہیں، جبکہ جنوبی کوریا میں بڑی عمر رکھنے والے افراد کا 43 فیصد غربت کا شکار ہیں۔ سرمایہ داری کے تحت بڑی عمر رکھنے والے افراد ایک اور مظلوم پرت بن چکی ہے، جہاں عمر رسیدہ آبادی بڑھ رہی ہے اور پیدائش کی تعداد سے زیادہ اموات واقع ہو رہی ہیں۔قرض کی زنجیریںسکویڈ گیم کے ہر کھلاڑی کے لیے کیش کا بڑا انعام قرضوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی امید فراہم کرتا ہے۔ در حقیقت، جنوبی کوریا میں گھریلو قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں، جہاں ڈسپوزیبل آمدنی اور گھریلو قرض کی اوسط شرح 191 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر، گھریلو قرض کا دیوہیکل حجم 1.54 ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔سکویڈ گیم کے فرضی شرکاء اور حقیقی دنیا کے محنت کش قرض کے نتائج بھگت رہے ہیں، جبکہ جنوبی کوریا کی حکومت سٹیمولس پیکجز کے ذریعے اپنے قومی قرضے بڑھانے کے علاوہ کوئی بہتر حل نہیں نکال پا رہی۔ 2019ء میں ملکی قرضہ 726 ارب امریکی ڈالر تھا، جس کے اگلے سال 1 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔سامراجیتسیریز کے آخر میں (سپوئلر الرٹ!) سکویڈ گیم کو فنڈ کرنے والے وی آئی پی مہمانوں کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ اگرچہ گیم کے کھلاڑی اور عملہ کوریائی ہوتے ہیں، ان امیر تماشائیوں کی اکثریت کا لہجہ امریکی ہوتا ہے۔’دی ہوسٹ‘ فلم کی طرح، سکویڈ گیم میں امریکی وی آئی پیز کو کوریائی کرداروں کی اذیتوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی، جو تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر مادی حاصلات کو ترجیح دیتے ہیں۔حقیقی دنیا میں، امریکہ اپنے سامراجی کھیلوں میں کوریائی محنت کش طبقے کو مہرے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ مضمون لکھتے وقت، شمالی کوریا اپنے جنوبی ہمسایوں کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسی دوران، جنوبی کوریا آبدوز سے مارے جانے والے نئے بیلسٹک میزائل کے ذریعے اپنی امریکی حمایت یافتہ عسکری قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔تعداد میں قوت ہےآج اگرچہ کوریا کا محنت کش طبقہ دیوہیکل کمپنیوں اور امریکی سامراجیت پر مشتمل کوریائی سرمایہ دار طبقے کے دوہرے جبر کے تحت اذیتوں سے بھری زندگی سہہ رہا ہے، مگر ان کی تاریخ لڑاکا تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔2015ء میں، جنوبی کوریا کے اندر تین عام ہڑتالوں کی لہر دیکھنے کو ملی۔ تب ہزاروں محنت کشوں نے سڑکوں پر نکل کر دائیں بازو کی صدر پارک گیؤن ہائے اور اس کے مزدور دشمن قوانین کے خلاف احتجاج کیا تھا، جن کی قیادت ٹریڈ یونین کی کوریائی کنفیڈریشن (کے سی ٹی یو) کر رہی تھی۔جواباً، ریاست نے پولیس تشدد کو استعمال کرتے ہوئے اور ٹریڈ یونین قائدین کو گرفتار کر کے بڑے پیمانے پر جبر کا استعمال شروع کر دیا۔ اگرچہ مزدور دشمن قوانین میں چھوٹی موٹی ترامیم کر کے انہیں منظور کرایا گیا مگر کوریائی محنت کش طبقے نے اس جدوجہد سے اہم اسباق اخذ کیے۔اس مہینے، استحصالی نظام کے خلاف غصّے کا اظہار کرنے کی غرض سے 20 اکتوبر کو ’کے سی ٹی یو‘ نئی عام ہڑتال کے لیے متحرک ہو رہی ہے۔ ہڑتال کی تشہیر کے لیے ’کے سی ٹی یو‘ نے سکویڈ گیم کی طرز پر ”جنرل سٹرائیک گیم“ کا نام دے کر اپنا اشتہار بنایا ہے۔انقلابیہ واضح ہے کہ بد تر ہوتے مادی حالات کے باعث عالمی سطح پر طبقاتی شعور میں اضافہ ہو رہا ہے۔سکویڈ گیم میں سیونگ جی ہن اور اس کے مقروض ساتھیوں کی اذیتیں محض فرضی کہانی تک محدود نہیں، اور ایسا صرف جنوبی کوریا کے اندر نہیں ہو رہا۔ خون آلود مقابلے بازیوں کی طرح سرمایہ داری کے تحت بھی نجات کا کوئی راستہ نہیں۔کوریائی محنت کش طبقے کے سامنے انقلاب کا فریضہ ہے۔ ٹھوس سوشلسٹ مطالبات پر مبنی محنت کش طبقے کی ایک متحدہ تحریک، جسے ’کے سی ٹی یو‘ اور دیگر مزدور تنظیموں کی حمایت حاصل ہو، کے ذریعے مالکان اور سامراجیوں کا صفایا کیا جا سکتا ہے، اور دیوہیکل کمپنیوں سمیت سرمایہ داروں کے باقی شعبوں کو مزدوروں کے اختیارات میں لیا جا سکتا ہے۔