نوجوانوں کی بغاوت سے خوفزدہ حکمران طبقہ

عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے باعث دنیا بھر کے نوجوانوں کے حالات اپنی پچھلی نسلوں کے مقابلے میں بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ برطانیہ میں سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ رسالے فنانشل ٹائمز کے حالیہ آرٹیکل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ بحران کے باعث نوجوانوں میں ابھرتی بغاوت سے حکمران طبقہ خوف زدہ ہے۔ فنانشل ٹائمز ایک اخبار ہی نہیں بلکہ سرمایہ کاروں اور امیر لوگوں کیلئے ایک رابطے کا مخصوص ذریعہ ہے۔ اپنے اِن قارئین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور حال ہی میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں سے گفت و شنید کرنے کے بعد، فنانشل ٹائمز نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ نوجوان نسل موجودہ نظام سے بیزار کیوں ہے۔ ایک طرف تو نوکریوں کے مواقع بہت کم ہیں جیسا کہ فنانشل ٹائمز کے مطابق، اس سال او ای سی ڈی ممالک میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 18 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔ دوسرا مسئلہ ہاؤسنگ کا ہے جیسا کہ فنانشل ٹائمز اپنے قارئین کیلئے وضاحت کرتا ہے:

[Source]

”برطانیہ میں 30 سال سے کم عمر افراد اپنی گزشتہ دونسلوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ کرایہ ادا کر رہے ہیں۔ 2015ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں 25 سے 34 سا ل کی عمر کے افراد میں گھرو ں کی ملکیت کی شرح 37 فیصد ہے جو گزشتہ نسلوں میں اسی عمر کے افراد کیلئے 45 فیصد تھی۔“

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

لیکن نوجوانوں کی موجودہ نظام سے مایوسی در حقیقت مخصوص عوامل پر منحصر نہیں ہے بلکہ اپنے حجم میں بہت بڑی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ان کو ایک محفوظ اورمستحکم زندگی دینے کی صلاحیت پر بے اعتمادی کا اظہار ہے۔

ہم نے کرونا وباء کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی اور سماجی قتل ِ عام دیکھا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم ماحولیاتی بحران کا مسئلہ ہے جو پوری انسانیت کے وجود کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک نوجوان کا کہنا تھا ”نوجوانوں کا مستقبل مزید المناک نظر آرہا ہے“۔ لاکھوں لوگ اس بات سے واقف ہورہے ہیں کہ جبر اور تفریق جو پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اس کی بنیادیں اس نظام میں موجود ہیں۔ در حقیقت دنیا بھر کے تمام ممالک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کی زندگیاں انتشارا ور نااستواری کاشکار ہو رہی ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے سروے کے مطابق سپین، امریکہ اور برطانیہ میں 18 سے 34 سال کی عمر کے تقریباً 80 فیصد افراد اس بیان کی حمایت کرتے ہیں کہ”میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت میرے ملک میں حالات کنٹرول سے باہرہو چکے ہیں۔“ اسی طرح جنوبی افریقہ، برازیل، انڈیا، فرانس، کینیڈا، اٹلی، میکسیکواور روس میں بھی 60 فیصد سے زیادہ لوگ اس بات کی حمایت کرتے ہیں۔

فنانشل ٹائمز میں لکھنے والے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اپنے قارئین کو زیادہ خوف زدہ نہ کیا جائے، لیکن اگر یہ معاملات کو مزید گہرائی میں دیکھتے تویہ جان سکتے تھے کہ نوجوان بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ یہ سرمایہ داری ہی ہے جو ان کی زندگیوں پر حاوی پریشانی اور نااستواری کی وجہ بن رہی ہے۔ جولائی میں انسٹیٹیوٹ آف اکنامک افئیرز کے ایک مطالعے کے مطابق برطانیہ میں 70 فیصد سے زیادہ نوجوان ماحولیاتی بحران اور نسل پرستی کیلئے واضح طور پر سرمایہ داری کو موردالزام ٹھہراتے ہیں اور تقریباً 80 فیصد نوجوان رہائش کے بحران کی وجہ بالکل درست طور پر سرمایہ داری کو ہی مانتے ہیں۔ 67 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ وہ ایک سوشلسٹ سماج میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے اور ایک قابلِ ذکر تعداد 75 فیصد اس بات سے متفق تھی کہ ”سوشلزم ایک اچھا نظریہ ہے مگر یہ ماضی میں اس لیے ناکام ہوا کیونکہ اس کو صحیح طریقے سے لاگو نہیں کیا گیا“۔

امریکہ میں حالیہ برسوں کے دوران نوجوانوں میں سوشلزم کے نظریات مسلسل پروان چڑھ رہے ہیں، جس میں ملینئلز کی ایک بڑی تعداد سوشلزم کو سرمایہ داری سے زیادہ موزوں مانتی ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ ملینئلز سرمایہ داری کے مکمل خاتمے پر یقین رکھتے ہیں اور جنریشن زیڈ (6 سے 24 سال کی عمر والے) کے 28 فیصد کے نزدیک ’کمیونزم‘ زیادہ موزوں نظام ہے۔

حکمران طبقے کے پالیسی ساز اس خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سماج میں بڑھتے ہوئے غصے سے ان کے نظام کے وجود کو لاحق ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مدیروں نے اپنی ویب سائٹ پر بغیر کسی مقصد کے سرِ فہرست یہ بینر آویزاں نہیں کیاجس میں ان کی طرف سے قارئین کو پیپر سبسکرائب کرنے کی اپیل کی گئی تھی؛ اپیل یہاں سے شروع ہوتی ہے ”ہم سرمایہ داری پر یقین رکھتے ہیں“ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فنانشل ٹائمز جیسے جریدے کے مدیروں کیلئے یہ بات قابلِ ذکر ہے۔ اپیل میں مزید کہا گیا:

”لیکن سرمایہ داری کا ماڈل بگاڑ کا شکار ہے۔ ہمیں اس نظام کو بچانے کیلئے اصلاحات کرنا پڑیں گی۔ اگر آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو ہمیں جوائن کریں“۔

ان کی یہ اپیل کسی حد تک دور اندیش حکمتِ عملی کے ماہرین کی طرف سے ایک تنبیہ محسوس ہوتی ہے جو آگے آنے والے خطرات کو دیکھ سکتے ہیں۔

تاہم جیسا فنانشل ٹائمز کے مضمون میں لکھا گیا ہے کہ نوجوانوں میں شدید عدم اطمینان اور سٹیٹس کو پر اٹھنے والے سوالات کا اظہار بڑے پیمانے پر جڑت یا مستقبل کے لائحہ عمل کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ بہرحال ابھی ایسا ممکن نہیں ہے۔ فنانشل ٹائمز کا یہ کہنا کہ”نوجوان ابھی بھی پوسٹ پولیٹیکل ہیں، ”اور کسی ایک ہی مسئلے کے گرد برسرِ پیکار ہیں“ ان کے تذبزب اور نا امیدی کا اظہار کرتا ہے۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمزلکھتا ہے کہ پچھلے بحران کے نتیجے میں نوجوانوں میں ہونے والی ریڈیکلائزیشن نے البتہ تاخیر سے لیکن یکے بعد دیگرے ملکوں میں سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرکے رکھ دیا:

”عالمی بحران کے عرصے میں آخری تحریک 2008-09ء کے مالی بحران اور اس کے نتیجے میں آنے والے معاشی بحران اور آسٹیریٹی کے وقت میں دیکھی گئی۔ پہلے کی طرح اس نے نوجوانوں کو بری طرح متاثر کیا۔ بہت سارے لوگ آکوپائی وال سٹریٹ اور سپینش انڈیگناڈوس جیسی تحریکوں کا حصہ بنے اور 2015ء کے بعد جیرمی کاربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کے بائیں جانب جھکاؤ میں بھی بنیادی کردار ادا کیا“۔

اب فنانشل ٹائمز کا کہنا ہے کہ سرمایہ داری کا بحران مزید گہرا ہو گیا ہے اور نوجوان ابھی سے اس کے خلاف متحرک ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ نوجوانوں کو درپیش عدم مساوات کو کرونا وباء نے مزید واضح کردیا ہے۔ ”کرونا کے زیرِ اثر ہونے والے اکنامک شٹ ڈاؤن، جس نے سرمایہ داروں کے ا ثاثوں کی بجائے ملازمتوں کو زیادہ متاثر کیا ہے، سے بری طرح متاثر ہونے والے نوجوان نسلی بنیادوں پر انصاف طلبی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل کے گرد متحرک ہو رہے ہیں“۔

دایاں بازو لیبر پارٹی میں دوبارہ کنٹرول میں آنے کے بعد، بائیں بازو اور لیبر پارٹی کے اپنے یوتھ ونگ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں یہ باغی نوجوان لیبر پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن فنانشل ٹائمز کا کہنا ہے کہ یہ عمل حکمران طبقے کیلئے مزید خطرات کو جنم دے رہا ہے۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود نہیں جس میں ا س پنپتے عوامی غصے کا اظہار ہوسکے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ نوجوان محسوس کر رہے ہیں کہ یہ پورا سیاسی سیٹ اپ ان کی امنگوں کا اظہار نہیں کر سکتا: ”18 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں نے لیبر پارٹی کو ووٹ دیا تھا اور انہوں نے اب تک کوئی ایسی حکومت نہیں دیکھی جو مزدوروں کی ترجمان ہو“۔ یو سی ایل کے ایک استاد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا، ”واضح طور پر نظر آنے والی ناانصافی، مایوسی اور لوگوں کی ووٹ نہ دینے کی خواہش مجھے پریشان کرتی ہے۔ حالات کچھ ایسے ہیں کہ وباء کے باعث یہ (سرمایہ دار) معیشت کو نہیں بچا سکے اور اب یہ سیاسی میدان میں بھی شکست سے دوچار ہو رے ہیں“۔

دنیا میں تقریباً ہر جگہ یہی صورتِ حال ہے۔ روایتی ورکرز پارٹیوں کے قائدین جوفرسودہ سٹیٹس کو کا کوئی متبادل نہیں دے پائے دوبارہ سرمایہ داری میں نجات کے رستے تلاش کر رہے ہیں۔ پورے یورپ میں مختلف سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کی یہی صورتِ حال ہے جنہوں نے پچھلی دہائی میں اپنی قائم حکومتوں میں صرف آسٹیرٹی پر ہی عمل درآمد کرایاہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوان خود کو ان مین سٹریم سیاسی پارٹیوں سے بیگانہ محسوس کر رہے ہیں۔ یہ پاٹیاں ان کے سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ہیں اوریہ ان کی خواہش کے مطابق سماج کی انقلابی بنیادوں پر تبدیلی کی ترجمانی نہیں کرتیں۔

انقلابی نظریات

مرتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو ایک معقول مستقبل دینے کی صلاحیت کھو دینے والا یہ نظام پوری دنیا میں سماجی دھماکوں کی راہیں ہموار کر رہا ہے۔ فنانشل ٹائمز اس مسئلے کو ہوم اوننگ بے بی بومرز (جو 44 فیصد سے زیادہ گھروں کی ملکیت رکھتے ہیں) اور بے جائیداد ملینئلز اور جنریشن زیڈ کے درمیان جنریشن کے تنازعے کے طور پر بیان کرتاہے۔ فنانشل ٹائمز وضاحت کرتا ہے کہ ”اکنامک شٹ ڈاؤن، جس نے اثاثوں کی بجائے ملازمتوں کو زیادہ متاثر کیا ہے، کے نتیجے میں نوجوان بری طرح متا ثر ہوئے ہیں“۔

یہ کافی حد تک سچ ہے مگر فنانشل ٹائمز اس صورتِ حال کو طبقاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ خالصتاً جنریشنل بنیادوں پر دیکھتاہے۔ جو اِن اثاثوں کی بھاری اکثریت کی ملکیت رکھتے ہیں وہ نجی ملکیت رکھنے والے سرمایہ دار ہیں اور بڑے جاگیر دار ہیں۔ مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے دشمن پچھلی جنریشن کے ریٹائرڈ مزدور نہیں ہیں، جن کے پاس ملکیت کے نام پر واحد اثاثہ ان کا گھر ہے جس کو اتفاق سے برطانیہ میں ٹوری پارٹی کی حکومت وہ بھی چھوڑنے پر مجبور کررہی ہے تاکہ وہ اپنے اولڈ ایج ہومز کے اخرا جات برداشت کر سکیں۔

فنانشل ٹائمز اپنے قارئین کوجس غصے کے بارے میں بتاتا ہے وہ طبقاتی بنیادوں پرابھرنے والا غصہ ہے۔ جیسا کہ ایک اطالوی کمپیوٹر انجینئرنگ گریجوایٹ جو اپنے والدین کے پاس رہ رہا ہے، حکمران طبقے کے اس جریدے کو بتاتا ہے:

”ہم یہ جان چکے ہیں کہ ہماری زندگیوں پر پابندیاں لگاتے ہوئے سیاست براہِ راست ہم پر اثر انداز ہوتی ہے۔۔یہ صورتِ حال ہمیں سیاست کے زیادہ نزدیک لے آئی ہے۔۔ہم مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور مستقبل کے معمار ہیں اور ایک مظبوط جنریشن کی رائے عامہ کو اس وقت تقویت مل رہی ہے“

جس شدت اور پیمانے کے بدلاؤ کی ضرورت نوجوان محسوس کررہے ہیں وہ چھوٹے چھوٹے اصلاحی اقدامات کے ذریعے نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر سماج کی از سرِ نو تبدیلی کے ذریعے ممکن ہے؛ نہ صرف باغی نظریات، بلکہ انقلابی نظریات کی ضرورت ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہے و ہ مارکسزم کے نظریات ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی جائے جہاں نوجوان اور باغی لوگ مایوسی اور بیگانگی کا شکار نہ ہوں بلکہ اپنی توانائیوں کو طبقاتی جدوجہد کیلئے استعمال کر سکیں۔

سرمایہ داروں کے لاکھ نہ چاہنے کے باوجود حالیہ سالوں میں نوجوانوں میں سماج کو انقلابی بنیادوں پر بدلنے کی خواہش ختم نہیں ہوئی بلکہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کے باعث اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لیکن صحیح معنوں میں کچھ نہ کرپانے کے قابل اصلاح پسند سیاست دان جو سنگل ایشو کمپئینزیا اصلاحات کے ذریعے نظام کو کسی نہ کسی شکل میں چلائے رکھناچاہتے ہیں، نوجوانوں کی اس خواہش کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔

جیسا کہ اینتھروپولوجی کے ایک گریجوایٹ نے فنانشل ٹائمزکے ایک آرٹیکل کے اختتام پر بتایا: ”لوگ جان چکے ہیں کہ اگر ہم حالات کو مختلف نقطہ نظر سے پرکھنے کے بارے میں نہیں سوچتے تو کرونا جیسے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہیں گے، اور اب وہ اس طرح کے اقدامات کرنے کیلئے تیار ہیں جو ماضی میں غلط سمجھے جاتے تھے“۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ بے خوف ہو کر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کیلئے منظم ہونا ہے تاکہ اقتدار نوجوانوں اور مزدور طبقے کو سونپ دیا جائے۔