لینن۔۔۔خواتین کے سوال پر(ایک انٹرویو) Share Tweetمحنت کش خواتین کے عالمی دن پر ہم اپنے قارئین کے لیے مارکسی استاد اور انقلابِ روس کے عظیم قائد لینن کا ایک انٹرویو شائع کر رہے ہیں جو کہ جرمن کمیونسٹ رہنما کلارا زیٹکن نے کیا۔ اس انٹرویو میں لینن عورت کے سوال، اس کے مختلف پہلوؤں، محنت کش خواتین کو منظم کرنے، مزدور تحریک کے ساتھ اس کے تعلق اور عورت کی نجات کے لیے سوشلسٹ سماج کی جدوجہد پر روشنی ڈالتا ہے۔[FUENTE ORIGINAL]عورتوں کے حقوق پر کامریڈ لینن سے میری کئی مرتبہ گفتگو ہوئی۔ یہ واضح تھا کہ وہ خواتین کی تحریک کو انتہائی اہم اور عوامی تحریک کا ایک کلیدی جزو سمجھتے تھے جو مخصوص حالات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ وہ خواتین کی مکمل سماجی برابری کو ایک بنیادی اصول سمجھتے تھے جس سے کوئی کمیونسٹ منحرف نہیں ہو سکتا۔اس مسئلے پر میری پہلی طویل گفتگو کریملن میں لینن کی وسیع مطالعہ گاہ میں 1920ء کے موسمِ خزاں میں ہوئی۔ لینن کا میز کتابوں اور کاغذات سے بھرا پڑا تھالیکن اس میں غیر معمولی اذہان کے ساتھ منسلک کردہ انتشار اور بے ترتیبی کا شائبہ تک نہ تھا۔میرا استقبال کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ”ہمیں تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے واضح اور ناقابلِ مصالحت نظریاتی بنیادوں پر خواتین کی ایک طاقتور عالمگیر تحریک تعمیر کرنی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ مارکسی نظریے کے بغیر ہمارا عمل درست نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے ہم کمیونسٹوں کو واضح اصول مرتب کرنا ہوں گے۔ ہمیں اپنے اور دوسری تمام پارٹیوں کے درمیان واضح لکیر کھینچنی ہوگی۔ بد قسمتی سے ہماری دوسری عالمی کانگریس خواتین کے سوال کو توقعات کے مطابق زیر بحث نہ لا سکی۔ کانگریس میں یہ سوال تو اٹھایا گیا مگراس حوالے سے کوئی واضح مؤقف لینے کی جانب نہ بڑھا جاسکا۔ ایک کمیٹی ابھی بھی اس مسئلے پر غوروفکر کر رہی ہے۔ کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک قرار داد، تھیسس اور ہدایات مرتب کرے لیکن تاحال اس حوالے سے زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ آپ کو لازمی اس کمیٹی کی مدد کرنی چاہیے۔“جو کچھ لینن نے مجھے بتایا وہ میں پہلے بھی دیگر ذرائع سے سن چکی تھی اور میں نے کمیٹی کی غیر فعال ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔انقلاب کے دوران اور اب اس کے دفاع اور ترویج کے حوالے سے میں روسی خواتین کے کردار سے بہت متاثر تھی۔ جہاں تک بالشویک پارٹی میں خواتین کے کردار اور سرگرمیوں کا تعلق تھا، میرے خیال میں اس حوالے سے یہ ایک مثالی پارٹی تھی، واحد مثالی پارٹی۔ صرف اس پارٹی نے کمیونسٹ خواتین کی عالمی تحریک کے لیے قابلِ قدر تربیت یافتہ اور تجربہ کار قوت مہیا کرتے ہوئے تاریخی مثال قائم کی تھی۔محنت کش خواتین کی تحریکلینن نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ”ہاں یہ درست ہے اور بہت شاندار ہے۔ پیٹروگراڈ میں، یہاں ماسکو اور دیگر شہروں اور صنعتی مراکز میں پرولتاری خواتین نے انقلاب میں شاندار کردار ادا کیا۔ ان کے بغیر انقلاب کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ یا شاید بمشکل کامیاب ہوتا۔ یہ میری رائے ہے۔ انہوں نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ کیا اور اب بھی کر رہی ہیں! ذرا تصور کریں کہ انہوں نے کن کن تکالیف اور محرومیوں کو برداشت کیا۔ لیکن وہ ڈٹی ہوئی ہیں کیونکہ وہ سوویتوں کا دفاع کرنا چاہتی ہیں، وہ آزادی اور کمیونزم کی خواہاں ہیں۔ ہاں، ہماری خواتین مثالی طبقاتی جنگجو ہیں۔ وہ تعریف اور محبت کی حقدار ہیں۔ حتیٰ کہ ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ پیٹروگراڈ میں ’آئینی ڈیموکریٹس‘ کی ممبر خواتین نے بہ نسبت رذیل فوجی کیڈٹس کے زیادہ جرأت مندی سے ہمارا مقابلہ کیا۔“”یہ درست ہے کہ قابلِ اعتماد، ذہین اور انتھک خواتین ہماری پارٹی کا حصہ ہیں۔ وہ سوویتوں، عاملہ کمیٹیوں، عوامی کمیساریتوں اور ہر قسم کے اہم عوامی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان میں سے اکثر پارٹی میں یا مزدوروں اور کسانوں میں یا سرخ فوج میں دن رات انتھک کام کررہی ہیں۔ یہ ہمارے لیے انتہائی قابلِ قدر ہے۔ یہ دنیا بھر کی خواتین کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ خواتین کی صلاحیتوں اور سماج کو چلانے میں ان کے کلیدی کردار کا ثبوت ہے۔ پہلی پرولتاری آمریت حقیقی معنوں میں خواتین کی مکمل سماجی برابری کی راہیں ہموار کر رہی ہے۔ یہ (عمل) فیمینسٹ لٹریچر کے ان گنت پلندوں سے کہیں زیادہ تعصبات کا خاتمہ کرتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود، تاحال ہم کمیونسٹ خواتین کی ایک عالمی تحریک تعمیر نہیں کرسکے اور ہمیں ہر صورت یہ کام سرانجام دینا ہوگا۔ ہمیں فوری طور پر ایسی تحریک کے لئے کام شروع کرنا ہے۔ ایسی تحریک کے بغیر ہماری انٹرنیشنل اور اس کی تمام پارٹیوں کا کام ادھورا ہے اور ادھورا ہی رہے گا۔ تاہم ہمارے انقلابی کام کی کلیت میں تکمیل لازمی ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ بیرونِ ملک کمیونسٹ کام کی کیا صورتحال ہے؟“۔میں نے کوشش کی اس وقت میں اس سوال کا جتنا بہتر جواب دے سکتی تھی دوں کیونکہ کامنٹرن پارٹیوں کے مابین تعلقات ابھی بھی بہت ڈھیلے اوربے قاعدہ تھے۔ لینن نے تھوڑا آگے جھک کر بغیر کسی بوریت، بے صبری یا تھکاوٹ کے میری تمام باتیں بڑی توجہ سے سنیں، چاہے وہ ثانوی نو عیت کی کیوں نہ تھیں۔ میں کبھی ایسے شخص سے نہیں ملی جو لینن سے زیادہ بہتر سامع ہو یا ہر بات سن کر پھرتی سے انہیں آپس میں جوڑتے ہوئے حقیقی جوہر تک جا پہنچے۔ یہ حقیقت اس کے مختصر اور انتہائی مخصوص سوالات سے واضح تھی جو وہ وقتاً فوقتاً کر رہا تھا اور پھر دورانِ گفتگو گاہے بگاہے وہ کسی مخصوص حصے پر زیادہ تفصیل کا متلاشی ہوتا تھا۔ لینن نے کچھ مختصر نوٹ بھی بنائے۔ظاہر ہے میں نے جرمنی کے حالات کے بارے میں زیادہ تفصیلی گفتگو کی۔ میں نے لینن کو بتایا کہ روزا لگسمبرگ انقلابی تحریک میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے قائم ہونے پر روزا لگسمبرگ نے زور دیا کہ خواتین کا ایک اخبار جاری ہونا چاہیے۔ لیو جوگے چیز سے میری آخری ملاقات اس کے قتل سے چھتیس گھنٹے قبل ہوئی، اس دوران اس نے میرے ساتھ پارٹی کام کے حوالے سے گفتگو کی۔ اس نے کئی کام میرے ذمے لگائے جن میں سے ایک ذمہ داری محنت کش خواتین میں کام کو منظم کرنا تھا۔ پارٹی نے اپنی پہلی غیر قانونی کانگریس میں اس سوال پر بحث مباحثہ کیا۔ جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران نمایاں ہونے والی تجربہ کار خواتین قائدین میں شاید ہی کوئی ایسا تھا جو کسی رنگ نسل کا سوشل ڈیموکریٹ نہ ہو اور ان کا سرگرم پرولتاری خواتین پر گہرا اثرورسوخ تھا۔ لیکن اسی دوران سرگرم اور وفادار خواتین کا ایک ایسا چھوٹا گروہ بھی موجود تھا جو پارٹی کے ہر کام اور ہر جدوجہد میں پر جوش شرکت کر رہا تھا۔ علاوہ ازیں، پارٹی نے بذاتِ خود محنت کش خواتین میں منظم سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب بالکل ابتدائی نوعیت کا تھا لیکن بہرحال ایک اچھا آغاز ضرور تھا۔لینن نے کہا کہ ”خوب، بہت خوب۔ غیر قانونی اور نیم قانونی ادوار میں کمیونسٹ خواتین کی توانائی، جاں نثاری اور جوش وخروش، بہادری اور ذہانت ہمارے کام کی بڑھوتری کے لئے خوش آئند ہیں۔ پارٹی کے پھیلاؤ اور توانائی میں اضافہ کرتے ہوئے عوام کو جیتنے اور اپنی جدوجہد کو کامیاب کرنے میں یہ اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن تمام کامریڈز کو اس سوال کی بنیادوں کے حوالے سے واضح سمجھ بوجھ سے لیس کرنے اور ان کی تربیت کے حوالے سے آپ کیا کر رہی ہیں؟ عوام میں کام کرنے کے لئے یہ سب سے اہم ہے۔ ہم عوام میں جن خیالات کا پرچار کر رہے ہیں، چاہتے ہیں کہ وہ ان کو اپنائیں اور ان سے تحریک حاصل کریں، اس کے لئے یہ کام بہت اہم ہے۔ اس وقت مجھے یاد نہیں کس نے کہا تھا کہ ’بڑے کام سرانجام دینے کے لیے امنگ ہونی چاہیے‘۔ ہمیں اور پوری دنیا کے محنت کشوں کو ابھی بہت بڑے کام سر انجام دینے ہیں۔ آپ کی کامریڈوں یعنی جرمنی کی پرولتاری خواتین کو کیا متاثر کرتا ہے؟ جرمن پرولتاریہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا ان کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں (خواتین کی)تحریک کے سیاسی مطالبات کے ساتھ میل کھاتے ہیں؟ ان کی سوچ کا مرکز کیا ہے؟”میں نے روسی اور جرمن کامریڈز سے عجیب و غریب باتیں سنی ہیں۔ میں بتاتا ہوں کہ میرا مطلب کیا ہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ ہیمبرگ میں ایک شاندار کمیونسٹ خاتون جسم فروش خواتین کے لئے ایک اخبار نکال رہی ہے اور انہیں انقلابی جدوجہد کے لئے منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ روزا جو کہ ایک حقیقی کمیونسٹ ہے اور اس وقت اس کا رویہ عین انسان دوست تھا جب اس نے ان جسم فروشوں کی حمایت میں ایک آرٹیکل لکھا جنہیں ان کی قابلِ افسوس تجارت سے متعلق کسی پولیس ضابطے کی خلاف ورزی کی پاداش میں جیل پھینک دیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے وہ بورژوا سماج کے دہرے ظلم کا شکار ہیں۔ پہلا ظلم اس لعنتی ملکیتی نظام کا اور دوسرا ظلم اس کی نام نہاد اخلاقی منافقت کا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ صرف ایک سطحی اور تنگ نظر شخص ہی اس حقیقت سے منہ موڑ سکتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا ایک بات ہے لیکن، میرے لئے الفاظ کا چناؤ تھوڑا مشکل ہو رہا ہے، جسم فروشوں کو ایک خاص انقلابی پرت کے طور پر منظم کرنا اور ان کے لئے ایک ٹریڈ یونین اخبار شائع کرنا ایک دوسری بات ہے۔ کیا واقعی جرمنی میں کوئی صنعتی محنت کش خواتین موجود نہیں جنہیں منظم کیا جاسکے، جنہیں ایک اخبار کی ضرورت ہو، جو تمہاری جدوجہد میں شریک ہو سکیں؟ یہ ایک نقصان دہ انحراف ہے۔ اس بات سے مجھے ہر جسم فروش کو پاک دامن خاتون دکھانے کی مقبول ادبی کاوش یاد آ رہی ہے۔ اس کا آغاز بھی منطقی تھا یعنی سماجی ہمدردی اور نام نہاد قابلِ عزت بورژوازی کی اخلاقی منافقت۔ لیکن یہ مثبت رویہ بھی بورژوا اثرات کے تحت زنگ آلود اور رذیل ہو گیا۔ ہمیں اپنے ملک میں بھی جسم فروشی جیسے گھمبیر مسئلے کا سامنا ہے۔ ان جسم فروشوں کو پیداواری کام میں واپس لے کر آؤ اور انہیں سماجی معیشت میں شامل کرو، یہی کرنے والا کام ہے۔ لیکن ہماری معیشت کی موجودہ صورتحال اور دیگر حالات اس مسئلے کو مشکل اور پیچیدہ بنائے ہوئے ہیں۔ خواتین کے سوال کا یہ پہلو پرولتاریہ کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی تمام تر سنجیدگی سے ہمارے مدِ مقابل ہے، اور عملی حل کا متقاضی ہے۔ سوویت روس میں ابھی بھی اس حوالے سے بہت کام باقی ہے۔ لیکن ہم جرمنی میں آپ کے مخصوص مسئلے کی طرف واپس آتے ہیں۔ پارٹی کو کسی صورت اپنے ممبران کے اس غیر ذمہ دار رویے سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے ہماری قوتیں متذبذب اور منقسم ہوتی ہیں۔ اب بتائیں کہ آپ نے اس کی روک تھام کے لئے کیا کیا ہے؟“جنس(Sex) اور شادی بیاہمیرے جواب دینے سے پہلے ہی لینن نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”کلارا، آپ کے گناہوں کی فہرست اور بھی گھمبیر ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ محنت کش خواتین کے لئے منظم کی جانے والی تدریسی اور بحث مباحثے کی شاموں میں جنس اور شادی بیاہ کے مسائل سب سے پہلے زیرِ بحث آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے سیاسی اور تدریسی کام میں یہ موضوعات سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں۔ یہ سب سنتے ہوئے مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ پرولتاری آمریت کی پہلی ریاست پوری دنیا کی ردِ انقلابی قوتوں سے نبرد آزما ہے۔ خود جرمنی میں اس وقت ایسی صورتحال ہے کہ تمام پرولتاری قوتوں کو انتہائی متحد ہونا چاہیے تاکہ بڑھتے ردِ انقلاب کا مقابلہ کیا جا سکے۔ لیکن سرگرم کمیونسٹ خواتین جنسی مسائل اور ’ماضی، حال اور مستقبل‘ کی شادی بیاہ کی ہیئت پر بحث و مباحثہ میں مصروف ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کا سب سے اہم کام محنت کش خواتین کو ان مسائل پر آگاہی فراہم کرنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جنس کے سوال پر ویانا میں کسی کمیونسٹ خاتون کا لکھا گیاپمفلٹ اس وقت سب سے زیادہ مقبول ہے۔ وہ کتابچہ کتنا غلیظ ہے! اس میں جو کچھ درست تھا محنت کش اسے عرصہ دراز پہلے بیبل(جرمن سوشل ڈیموکریٹک ورکرز پارٹی کا ایک بانی اور نظریہ دان۔مترجم) سے پڑھ چکے ہیں۔ پمفلٹ کے سرد اور اعصاب شکن اسلوب میں نہیں بلکہ اس ہیجانی طرزِ بیان میں جو بورژوا سماج پر حملہ آور ہوتی ہے۔ فرائیڈ کے مفروضوں کا ذکر پمفلٹ پر سائنسی ملمع کاری کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ فرائیڈ کے مفروضے آج کل ایک خبط بن چکے ہیں۔ مجھے مضامین، مقالات، پمفلٹ وغیرہ میں پرچار کی گئی جنسی تھیوریوں پر کوئی اعتماد نہیں یعنی ان تھیوریوں پر اعتماد نہیں جو بورژوا سماج کی غلاظت سے جنم لینے والے ادب (یا تحقیق) کا حصہ ہیں۔ مجھے ان پر کوئی اعتبار نہیں جو ہر وقت جنسی مسائل میں ڈوبے رہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ایک ہندو صوفی ہر وقت اپنے ناف کے روحانی جائزے میں ڈوبا رہتا ہے۔”میرا خیال ہے کہ جنسی تھیوریوں کی یہ بھرمار، جو زیادہ تر مفروضات ہی ہیں اور وہ بھی من چاہے، کسی ذاتی ضرورت سے جنم لیتی ہے۔ اس کی بنیاد اپنی غیر معمولی یا بے انتہا جنسی سرگرمی کا بورژوا اخلاقیات کے آگے جواز پیش کرنا اور اپنے لیے رواداری کا متمنی ہونا ہے۔ بورژوا اخلاقیات کے لئے یہ نیم ڈھکا چھپا احترام میرے لئے اتنا ہی تعفن زدہ ہے جتنا جنس سے متعلق ہر چیز کی حمایت کرنا ہے۔ دیکھنے میں یہ چاہے کتنا ہی باغیانہ اور انقلابی قدم ہو، حتمی تجزیے میں یہ خالصتاً بورژوا عمل ہے۔ دانشور اور اس قبیل کے تمام افراد خاص طور پر اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پارٹی اور باشعورلڑاکا پرولتاریہ میں اس کی کوئی جگہ نہیں“۔یہاں میں نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ نجی ملکیت اوربورژوا سماجی نظام میں جنس اور شادی کے سوالات ہر سماجی طبقے اور پرت سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے کئی مسائل، تضادات اور آلام و مصائب کا باعث بنتے ہیں۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے، جنگ اور اس کے نتائج نے بالخصوص جنسی تعلقات میں درپیش مسائل اور آلام و مصائب کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ نظروں سے اوجھل مسائل اب خواتین پر آشکار ہوچکے ہیں۔ اس میں ابھرتے انقلاب کے اثرات بھی شامل ہوگئے ہیں۔ پرانی دنیا کی سوچ اور احساسات دم توڑ رہے ہیں۔ پرانے سماجی تعلقات ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں اور لوگوں کے درمیان نئے تعلقات پروان چڑھ رہے ہیں۔ متعلقہ سوالات میں دلچسپی روشن خیالی اور ایک نئی جہت کی ضرورت کا اظہار ہے۔ یہ بورژوا سماج کے جھوٹ اور فریب کے خلاف ایک ردِ عمل بھی ہے۔ تاریخی ارتقاء کے ساتھ شادی اور خاندان(کے ادارے) کی ہیئت میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور ان (ہئیت) کے معیشت کے ساتھ تعلق نے محنت کش خواتین کے اذہان میں بورژوا سماج کے ازلی اور ابدی ہونے کے حوالے سے موجود توہم پرستی کو توڑ نے کا کام کیا۔ ان مسائل کا تنقیدی اور تاریخی جائزہ ناگزیر طور پر بورژوا سماج کی جانچ پڑتال کی طرف لے جائے گاتاکہ اس کے حقیقی خدوخال اور اثرات بشمول جنسی اخلاقیات اور فریب کا پردہ فاش ہو سکے۔ (پرانی کہاوت ہے کہ) تمام راستے روم کو جاتے ہیں۔ اور سماج کے کسی بھی اہم بالائی ڈھانچے یا غالب سماجی مظہر کے ہر درست مارکسی تجزیے کا مطلب بورژوا سماج اور اس کی ملکیتی بنیادوں کا تجزیہ ہے جس کے بعد یہی آشکار ہو گا کہ ”اسے تباہ و برباد ہونا چاہیے“۔لینن نے ہنستے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ ”ہاں! اب ہم اصل بات تک پہنچ گئے۔ آپ بالکل کسی وکیل کی طرح اپنی کامریڈز اور اپنی پارٹی کا دفاع کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ درست کہہ رہی ہیں۔ لیکن یہ جرمنی میں سرزد ہونے والی غلطیوں کاعذر تو ہوسکتا ہے، جواز نہیں۔ وہ غلطیاں تھیں اور ہیں۔ کیا آپ واقعی سچے دل سے مجھے یہ یقین دہانی کرا سکتی ہیں کہ ان بحث و مباحثوں میں جنس اور شادی کے سوالات کے جوابات تاریخی مادیت کے ایک پختہ اور اہم نقطہ نظر کی روشنی میں دئیے گئے؟ اس کے لئے عمیق اور وسیع مطالعہ اور ڈھیر سارے مواد پر مکمل مارکسی عبور لازم ہے۔ کیا آپ کے پاس ابھی اس کے لئے درکار قوتیں موجود ہیں؟ اگر ان قوتوں کا کوئی وجود ہوتا تو جس پمفلٹ کا میں نے ذکر کیا ہے، اس کو تدریسی اور بحث مباحثے کی نشستوں میں مواد کے طور پر استعمال نہ کیا جاتابلکہ اس پر شدید تنقید کی جاتی۔ اور اس سوال پر اس بیکار غیر مارکسی طریقہ کار کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟ کہ جنس اور شادی بیاہ کے سوالات کو بنیادی سماجی سوال کے ایک جزو کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا بلکہ اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے یعنی دیو ہیکل بنیادی سماجی سوال جنسی مسائل کا ایک حصہ، ایک ذیلی شق بن کر رہ گیا ہے۔ بنیادی مسئلہ ذیلی بن چکا ہے۔ اس سے نہ صرف سوال کی وضاحت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے بلکہ اس سے محنت کش خواتین کا طبقاتی شعور اور سوچ بھی مجروح ہورہے ہیں۔اور پھر سب سے اہم بات، دانا سلیمان نے بھی کہا تھا کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا یہ وقت محنت کش خواتین کو مہینوں ان سوالوں میں الجھائے رکھنے کا ہے کہ محبت کیسے کی جاتی ہے، شادی بیاہ کیسے کیا جاتا ہے؟ مزید برآں یہ کہ ’ماضی، حال اور مستقبل‘ اور مختلف نسلوں میں یہ سب کیسے ہوتا ہے،اوراسے فخر سے تاریخی مادیت کہا جاتا ہے! اس وقت تمام خواتین کامریڈز، تمام محنت کش خواتین کی سوچ کا مرکز پرولتاری انقلاب ہونا چاہیے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو مادی اور جنسی تعلقات میں حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار کرے گا۔ اس وقت آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میں رائج شادی(کے ادارے) کی اشکال یا ماضی کے وقتوں میں بہن اور بھائی میں شادی جیسے سوالوں سے ہٹ کر زیادہ ضروری مسائل کو اہمیت دینی ہوگی۔ اس وقت جرمن پرولتاریہ کو سوویتوں کا سوال، ورسائی معاہدہ اور اس کے محنت کش خواتین کی زندگیوں پر اثرات۔۔بیروزگاری، گرتی اجرتیں، ٹیکس اور کئی اہم مسائل درپیش ہیں۔ غرضیکہ میرا موقف یہی ہے کہ محنت کش خواتین کی اس قسم کی سیاسی اور سماجی تعلیم غلط ہے، بالکل غلط ہے۔ آپ اس بارے کیسے خاموش رہ سکتی ہیں؟ آپ کو ہر صورت اس کے خلاف اپنی اتھارٹی استعمال کرنی چاہیے“۔جنسی اخلاقیاتمیں نے اپنے پرجوش دوست کو بتایا کہ میں نے ہر موقع پر، مختلف جگہوں پر موجود سرگرم خواتین کامریڈز سے تنقیدی بحث اور جرح کی ہے۔ لیکن، جیسا کہ وہ خود بھی جانتا ہے، گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔ تنقید کی وجہ سے مجھ پر ”سوشل ڈیموکریٹک رویوں کی باقیات اور دقیانوسی سوچ“ کے الزامات لگائے گئے۔ لیکن، بالآخر میری تنقید کام کرگئی۔ بحث مباحثے کی شاموں میں اب جنس اور شادی کے سوال مرکزی حیثیت کھو چکے تھے۔ لینن نے اپنے دلائل کا دھارا دوبارہ جوڑا۔”ہاں، ہاں، میں جانتا ہوں۔ اس حوالے سے مجھ پر بھی کئی لوگوں نے دقیانوسی ہونے کے الزامات لگائے ہیں حالانکہ مجھے اس سے گھن ہوتی ہے۔ اس میں کتنا فریب اور تنگ نظری ہے۔ بہرحال میں سکون سے برداشت کر رہا ہوں۔ جب چھوٹی چڑیاں بورژوا نظریات کے انڈوں سے باہر آتی ہیں تو ہمیشہ کچھ زیادہ ہی عقل مند ہوتی ہیں۔ ہمیں برداشت کرنا پڑے گا۔ جنسی سوالات کے حوالے سے نوجوانوں کی تحریک پر بھی اس جدید بیماری کا حملہ ہو رہا ہے جو(اس حوالے سے) ضرورت سے کچھ زیادہ ہی فکر مند ہیں“۔لینن نے منہ بناتے ہوئے طنزاً لفظ جدید پر زور دیا۔”مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہاری نوجوانوں کی تنظیموں میں بھی جنسی سوالات سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع ہیں اور یہ کہ اس موضوع پر تدریس کرنے والے بہت کم ہیں۔ اس قسم کی لغویات نوجوانوں کی تحریک کے لئے خاص طور پر خطرناک ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ بآسانی جنسی طور پر برانگیختہ اور حد سے بڑھی جنسی زندگی کا شکار ہو سکتے ہیں جس کا نتیجہ نوجوانوں کی صحت اور قوت کا ضیاع ہے۔ آپ کو اس کے خلاف بھی لڑنا ہے۔ خواتین اور نوجوانوں کی تحریک کے درمیان روابط کی کوئی کمی نہیں۔ ہماری کمیونسٹ خواتین کو ہر جگہ ایک نظم وضبط کے ساتھ نوجوانوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ یہ ممتا(Motherhood) کا ایک ہی تسلسل ہوگا اور اس کوممتاز کرتے ہوئے انفرادیت سے بلند کر کے سماجی سطح تک وسعت دے گا۔ خواتین کی ابھرتی سماجی زندگی اور سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ وہ گھر اور خاندان کے گرد گھومنے والی دقیانوسی اور تنگ نظر نفسیات سے باہر آسکیں۔ اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔”ہمارے ملک میں بھی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جنسی سوالات کے حوالے سے ’بورژوا نظریات اور اخلاقیات کی ازسرِ نو تشکیل‘ میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اور یہاں مجھے کہنا پڑے گا کہ اس میں ہمارے سب سے بہترین اور امید افزا نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ آپ نے جو پہلے بات کی وہ درست ہے۔ جنگ کے بعد کے حالات اور انقلاب کے آغاز سے پرانی نظریاتی اقدار کا سامنا ایک ایسے سماج سے ہے جس کی معاشی بنیادوں میں انقلابی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور اس سب کی وجہ سے وہ مٹ رہی ہیں۔ نئی اقدار کا جنم سست روی سے جدوجہد میں ہو رہا ہے۔ لوگوں کے درمیان، مرد اور عورت کے درمیان احساسات اور خیالات انقلابی تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ انفرادی اور سماجی حقوق اور انفرادی فرائض کی ازسرِ نو تشکیل ہو رہی ہے۔ پورا معاملہ اس وقت شدید ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ مختلف متضاد رجحانات کی سمت اور طرز ارتقاء کے خدوخال ابھی واضح نہیں ہیں۔ یہ انحطاط اور افزائش کا ایک سست رو اور اکثر اوقات انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ اس صورتحال کا اطلاق جنسی تعلقات، شادی بیاہ اور خاندان کے معاملات پر بھی ہوتا ہے۔ بورژوا شادی(کے ادارے) کی غلاظت، انحطاط، کرپشن، اس میں طلاق کا مشکل ہونا، مرد کی آزادی، عورت کی غلامی، جنسی اخلاقیات کا تعفن زدہ فریب، روشن اذہان اور بہترین انسانوں کو شدید متنفر کرتے ہیں۔”بورژوا شادی (کے ادارے) کا جبر اور بورژوا ریاست کے خاندانی قوانین ان برائیوں اور تضادات کو اور بھی زیادہ ابھارتے ہیں۔ یہ ’مقدس‘ ملکیت کا جبر ہے۔ یہ طمع، کمینگی اور غلاظت کو مقدس بنا دیتا ہے۔ اور‘مہذب‘ بورژوا سماج کی عمومی منافقت باقی کا کام کرتی ہے۔ لوگ رائج الوقت غلاظتوں اور کج روی کے خلاف بغاوت کر تے ہیں۔ اور ایک ایسے دور میں جب دیو ہیکل سلطنتیں تباہ و برباد ہو رہی ہیں، جب ماضی کے طاقتوں کے تعلقات انتشار کا شکار ہیں، جب پوری دنیا کا سماجی نظام زوال پذیر ہے، ایسے میں ایک فرد کے احساسات تیزی سے تبدیل ہونے کی طرف جاتے ہیں۔(اور) لذت کی مختلف اشکال کی اشتہا بڑی آسانی سے پرکشش قوت بن جاتی ہے۔ بورژوا معنوں میں جنس اور شادی(کے ادارے) میں اصلاحات کسی کام کی نہیں۔ جنسی تعلقات اور شادی بیاہ میں پرولتاری انقلاب کے مساوی ایک انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ خواتین اور نوجوان اس وجہ سے جنم لینے والے گھمبیر اور پیچیدہ مسائل میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ دونوں ہی موجودہ جنسی تعلقات کی رائج گھٹیا صورتحال سے آلام و مصائب کا شکار ہیں۔ نوجوان اپنی عمر کی مخصوص گرمجوشی سے ان کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ یہ عین فطری ہے۔(ایسے میں) نوجوانوں کو راہبانہ نفیئ نفس اور گھٹیا بورژوااخلاقیات کے تقدس کا پرچار سب سے بڑا فریب ہے۔ تاہم، یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ سیکس نوجوانوں کی نفسیات پر اس وقت پوری طرح حاوی ہوجائے جن سالوں میں وہ پہلے ہی ایک زبردست جسمانی جذبہ بن چکا ہوتا ہے۔ اس کے انتہائی خطرناک نتائج ہوتے ہیں! اس سے متعلق کامریڈ لیلینا سے بات کریں۔ مختلف تدریسی اداروں میں وسیع پیمانے پر کام کرنے کی وجہ سے ان معاملات میں اس کاٹھوس تجربہ ہے اور آپ کو تو پتہ ہے کہ وہ سکہ بند کمیونسٹ ہے اور اس میں کوئی تعصبات نہیں ہیں۔”اس میں کوئی شک نہیں کہ جنس کے سوال پر نوجوانوں کا تبدیل شدہ رویہ ’بنیادی‘ اور نظریات پر مبنی ہے۔ بہت سارے لوگ اسے ’انقلابی‘ اور ’کمیونسٹ‘ گردانتے ہیں۔ وہ مخلصاً ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں اور میں ہرگز اسے پسند نہیں کرتا۔ شاید لوگ مجھے ایک بدمزاج راہب گردانیں گے لیکن نوجوانوں۔۔اور اکثر اوقات بالغوں۔۔ کی یہ نام نہاد ’نئی جنسی زندگی‘ مجھے خالصتاً بورژوا اور درحقیقت پرانے بورژوا چکلوں کا ایک تسلسل لگتی ہے۔ ہم کمیونسٹوں کی سمجھ کے مطابق اس کا آزاد محبت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یقیناً آپ نے وہ مشہور تھیوری ضرور سنی ہو گی کہ ایک کمیونسٹ سماج میں جنسی پیاس بجھانا اور محبت کی ضرورت کو پورا کرنا اتنا ہی آسان اور معمولی ہو گا جیسے ’پانی کا ایک گلاس پینا‘۔ ہمارے نوجوانوں کا ایک حصہ اس ’پانی کے گلاس کی تھیوری‘ کے پیچھے پاگل، حقیقتاً پاگل ہو چکا ہے۔ کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لئے اس کے نتائج انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس تھیوری کا پرچار کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک مارکسی تھیوری ہے۔ میں کسی ایسے مارکسزم کا حصہ نہیں بننا چاہتا جس میں تمام مظاہر اور سماج کے نظریاتی بالائی ڈھانچے میں ہونے والی تمام تبدیلیوں کو بآسانی اور براہِ راست معاشی بنیادوں سے استعار لیا جاتا ہے کیونکہ چیزیں ہر گز اتنی سادہ نہیں ہوتیں۔ فریڈرک اینگلز دہائیوں قبل تاریخی مادیت کے نقطہ نظر سے اس کے متعلق بات کر چکا ہے۔”میں سمجھتا ہوں کہ مشہورِ زمانہ ’پانی کے گلاس کی تھیوری‘ مکمل طور پر غیر مارکسی اور اس سے بھی زیادہ سماج دشمن ہے۔ جنسی زندگی میں صرف فطرت کو ہی مدِ نظر نہیں رکھنا ہوتا بلکہ ثقافتی خدوخال کا بھی ادراک ہونا چاہیے چاہے وہ کتنی ہی بلند یا پست معیار کیوں نہ ہو۔ اینگلز نے اپنی کتاب ’خاندان کا آغاز‘ میں لکھا ہے کہ یہ مظہر کتنا اہم تھا کہ عام جنسی تعلقات انفرادی جنسی محبت میں تبدیل ہوئے، پس پہلے سے خالص ہوگئے۔ مرد اور عورت کے درمیان تعلقات صرف معیشت اور جسمانی خواہش کے مجموعی اثر کا اظہار نہیں جنہیں دانستہ طور پر علیحدہ کر کے ان کا طبی معائنہ کیا جائے۔ یہ مارکسزم نہیں بلکہ عقلیت پسندی ہے کہ ان تعلقات میں تبدیلی کو براہِ راست سماج کی معاشی بنیادوں سے جوڑتے ہوئے مجموعی طور پر نظریات سے کاٹ دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیاس بجھانا لازم ہے۔ لیکن کیا ایک عام عقل و فہم والا انسان گٹر کا پانی پئے گا؟ یا کسی ایسے گلاس سے پانی پئے گا جسے پہلے ہی لاتعداد ہونٹ چھو چکے ہوں؟ لیکن سماجی پہلو سب سے اہم ہے۔ پانی کا پینا واقعی ایک انفرادی عمل ہے۔ لیکن جنسی عمل کے لئے دو افراد کی شراکت ضروری ہے اور ایک تیسرے انسان، ایک نئی زندگی کا جنم اسی عمل سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل میں سماجی پہلو ہے اور ایک سماجی ذمہ داری ہے۔”میں سمجھتا ہوں کہ مشہورِ زمانہ ’پانی کے گلاس کی تھیوری‘ مکمل طور پر غیر مارکسی اور اس سے بھی زیادہ سماج دشمن ہے۔ جنسی زندگی میں صرف فطرت کو ہی مدِ نظر نہیں رکھنا ہوتا بلکہ ثقافتی خدوخال کا بھی ادراک ہونا چاہیے چاہے وہ کتنی ہی بلند یا پست معیار کیوں نہ ہو۔ اینگلز نے اپنی کتاب ’خاندان کا آغاز‘ میں لکھا ہے کہ یہ مظہر کتنا اہم تھا کہ عام جنسی تعلقات انفرادی جنسی محبت میں تبدیل ہوئے، پس پہلے سے خالص ہوگئے۔ مرد اور عورت کے درمیان تعلقات صرف معیشت اور جسمانی خواہش کے مجموعی اثر کا اظہار نہیں جنہیں دانستہ طور پر علیحدہ کر کے ان کا طبی معائنہ کیا جائے۔ یہ مارکسزم نہیں بلکہ عقلیت پسندی ہے کہ ان تعلقات میں تبدیلی کو براہِ راست سماج کی معاشی بنیادوں سے جوڑتے ہوئے مجموعی طور پر نظریات سے کاٹ دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیاس بجھانا لازم ہے۔ لیکن کیا ایک عام عقل و فہم والا انسان گٹر کا پانی پئے گا؟ یا کسی ایسے گلاس سے پانی پئے گا جسے پہلے ہی لاتعداد ہونٹ چھو چکے ہوں؟ لیکن سماجی پہلو سب سے اہم ہے۔ پانی کا پینا واقعی ایک انفرادی عمل ہے۔ لیکن جنسی عمل کے لئے دو افراد کی شراکت ضروری ہے اور ایک تیسرے انسان، ایک نئی زندگی کا جنم اسی عمل سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل میں سماجی پہلو ہے اور ایک سماجی ذمہ داری ہے۔بطور ایک کمیونسٹ مجھے ’پانی کا گلاس‘ تھیوری بالکل پسند نہیں چاہے اس کا لیبل ’محبت کی آزادی‘ کتنا ہی خوشنماکیوں نہ ہو۔ علاوہ ازیں، محبت کی آزادی نہ تو کوئی نویکلا خیال ہے اور نہ ہی کمیونسٹ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلی صدی کے وسط میں اس خیال کی اعلیٰ ادب میں ’دل کی آزادی‘ کے نام سے ترویج کی گئی تھی۔ بورژوا عمل میں اس کا نتیجہ گوشت کی آزادی کی صورت میں نکلا۔ اس کا پرچار آج کے مقابلے میں زیادہ مستعدی سے کیا گیا تھا لیکن میں قیاس نہیں کر سکتا کہ عمل میں یہ کیا تھا۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میری تنقید رہبانیت کو جنم دے۔ ایسا میرے خواب و خیال میں بھی نہیں۔ کمیونزم کا نتیجہ رہبانیت کے بجائے زندگی میں خوشی اور قوت ہونا چاہیے اور ایک بھرپور جنسی زندگی اس میں معاون ثابت ہو گی۔ اس کے برعکس میرے خیال میں آج کی بے حساب جنسی زندگی سے نہ تو خوشی ملتی ہے اور نہ ہی قوت بلکہ ان پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ انقلابی عہد میں یہ خطرناک ہے، بہت خطرناک ہے۔نوجوانوں کو خاص طور پر خوشی اور طاقت کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو جہاں تک ممکن ہو اجتماعی طور پرجمناسٹکس، پیراکی، طویل سیر، ہر قسم کی جسمانی ورزش جیسے صحت مندکھیل اور وسیع دانشورانہ دلچسپیوں اور سیکھنے، پڑھنے اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کے لئے جنسی مسائل پر لامتناہی لیکچر، بحث مباحثہ اور نام نہاد ’بھرپور زندگی گزارنے‘ سے زیادہ یہ کام مفید ہیں۔ ایک صحت مند جسم میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ نہ راہب بنو اور نہ ہی عیاش لیکن کسی سطحی اور دقیانوسی جرمن کی طرح ان کے درمیان پھنس بھی نہ جاؤ۔ تم نوجوان کامریڈ X کو جانتی ہو۔ وہ ایک شاندار اور بہت باصلاحیت لڑکا ہے۔ ان سب خصوصیات کے باجود مجھے ڈر ہے کہ وہ ناکارہ رہے گا۔ اس کا ایک کے بعد ایک معاشقہ چل رہا ہے۔ یہ سیاسی جدوجہد اور انقلاب کے لئے درست نہیں۔ میں ایسی خواتین کے بھروسہ مند یا ثابت قدم ہونے کی ضمانت نہیں دیتا جس کا معاشقہ سیاست میں گڈ مڈ ہے اور نہ ہی ان مردوں کی جو ہر لہنگے کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہر لڑکی کے ساتھ مشغو ل ہو جاتے ہیں۔ نہیں، نہیں، انقلاب کے ساتھ ایسا نہیں چل سکتا“۔اچانک لینن کھڑا ہو گیا اور ٹیبل پر ہاتھ مارنے کے بعد کمرے میں ٹہلنے لگا۔”انقلاب عوام اور افراد کی مکمل توجہ اور صلاحیتوں کا بھرپورتقاضا کرتا ہے۔ یہ (انقلاب) ڈی اننزیو(اطالوی شاعر اور ڈرامہ نویس) کے عیاش ہیرو اور ہیروئنوں کی طرح رنگ رلیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ آزادانہ جنسی اختلاط بورژوا(عمل)ہے۔ یہ انحطاط کی نشانی ہے۔ پرولتاریہ ایک ابھرتا ہوا طبقہ ہے۔ اسے ہوش کھونے یا اشتہا انگیزی کے لئے کسی نشے کی ضرورت نہیں، نہ ہی اسے جنس یا شراب کے نشے کی ضرورت ہے۔ اسے سرمایہ داری کی گندگی، غلاظت اور بربریت کو نہ تو بھولنا چاہیے اور نہ ہی یہ بھولے گا۔ وہ جدوجہد کے لئے اپنا سب سے ٹھوس تحرک اپنی طبقاتی حیثیت، کمیونسٹ نظریات سے لیتا ہے۔ اسے وضاحت، وضاحت اور مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے میں پھر دہرا رہا ہوں کہ قوت کو کسی صورت کمزور، ضائع یا تحلیل نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے اوپر اختیار اور ضبط غلامی نہیں ہے، محبت کے معاملے میں بھی نہیں۔ لیکن معاف کرنا کلارا ہم نے بحث کا جہاں سے آغاز کیا تھا میں اس سے بہت دور نکل آیا ہوں۔ آپ نے مجھے ٹوکا کیوں نہیں؟ پریشانی کی وجہ سے کچھ زیادہ بول رہا ہوں۔ نوجوانوں کا مستقبل مجھے بہت محبوب ہے۔ یہ انقلاب کا لازمی حصہ ہیں۔ جب بھی نقصان دہ عناصر نمودار ہوتے ہیں، جو بورژوا سماج سے نکل کر انقلاب کی دنیا میں داخل ہو کر بے قابو گھاس کی طرح پھیل جاتے ہیں، ان کے خلاف فوری اقدامات ہی سب سے بہترین حکمت عملی ہے۔ جن سوالات پر ہم نے بات کی ہے وہ خواتین مسائل کا بھی حصہ ہیں“۔لینن بہت جذباتی اور مدلل باتیں کر رہا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہر لفظ اس کی زبان سے نہیں بلکہ دل سے ادا ہو رہا ہے اور اس کے چہرے کے تاثرات بھی اس کے جذبات کے آئینہ دار تھے۔ گاہے بگاہے وہ کسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے پر جوش اشارے بھی کرتا رہا۔ میں حیران تھی کہ انتہائی اہم سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ وہ معمولی سے معمولی مسئلے پر بھی کتنا دھیان دیتا تھا اوروہ کس حد تک آگاہ تھا۔ صرف سوویت روس سے متعلق ہی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ممالک سے بھی۔ وہ ایک شاندارمارکس وادی تھا، وہ ہر جزو کو نمودار ہوتے ہی پکڑ لیتا تھا اور ساتھ ہی کل کے ساتھ تعلق اور اس پر اس (جزو) کے اثرات کو بھی۔ اس کا پورا جوش و خروش اور نصب العین فطرت کی کوئی غیر متزلزل ناقابلِ تسخیر قوت تھا جس کاایک ہی مقصد تھا۔۔عوامی انقلاب کا کام۔ وہ ہر چیز کو انقلاب کی شعوری قوتِ محرکہ پر اثرات کے پیمانے پر پرکھتا تھا، قومی اور عالمی دونوں، کیونکہ وہ انفرادی ممالک کے تاریخی خدوخال اور ارتقاء کی مختلف سطحوں کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ مکمل عالمی انقلاب پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا۔میں نے کہا کہ ”کامریڈ لینن، مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کے الفاظ کو ہزاروں لاکھوں لوگوں نے نہیں سنا۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ آپ کو مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ کتنا اہم ہے کہ دوست اور دشمن دونوں آپ کی رائے سنیں!“لینن توقف سے مسکرایا۔”ہم نے جو بھی گفتگو کی ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی دن میں اس پر بات کروں یا لکھوں۔ لیکن ابھی نہیں۔ اس وقت ہمارا تمام وقت اور قوت دیگر مسائل پر مرکوز ہونے چاہئیں۔ ابھی ہمیں بہت گھمبیر اور دیو ہیکل مسائل کا سامنا ہے۔ سوویت ریاست کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط کرنے کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہمیں پولش جنگ کے نتائج کو ہضم کرتے ہوئے ان میں سے جو نکالا جا سکتا ہے نکالنا ہے۔ جنوب میں رینگل ابھی بھی موجود ہے۔ ویسے مجھے پکا یقین ہے ہم اس سے نبٹ لیں گے۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج اور ان کی کٹھ پتلیوں کا ماتھا ضرور ٹھنکے گا۔ لیکن ہمارے کام کا سب سے بڑا مسئلہ، تعمیرِ نو ابھی بھی ادھوراا پڑا ہے۔ اس میں جنسی تعلقات، شادی بیاہ اور خاندان کے مسئلے بھی ابھر کر سامنے آئیں گے۔ اس دوران آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ ان مسائل کو موقع محل دیکھ کر نپٹا جائے۔ آپ کو ان سوالات سے نپٹنے کے لیے غیر مارکسی طریقہئ کار کا سدِ باب کرنا چاہیے اور انہیں انتشار اور سازشوں کی بنیاد بننے سے روکنا چاہیے۔ اب آخر میں،میں آپ کے کام کی طرف آتا ہوں“۔منظم ہونے کے بنیادی اصوللینن نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا۔”میرے پاس آپ کے لئے جو وقت تھا اس میں سے نصف بیت چکا ہے۔ میں نے بہت زیادہ طویل گفتگو کی ہے۔ آپ نے خواتین میں کام کے حوالے سے چوٹی کا (نظریاتی) مقالہ لکھنا ہے۔مجھے آپ کے اصول پسند طریقہ کار اور عملی تجربے کا پتہ ہے۔ اس لئے اس حوالے سے ہماری گفتگو مختصر ہو گی، آپ کو جلد مصروف ہونا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ (نظریاتی)مقالہ کیا ہونا چاہیے؟“اس حوالے سے میں نے اسے درست رپور ٹ دی۔ لینن نے ٹوکے بغیر کئی مرتبہ اثبات میں سر ہلایا۔ رپورٹ مکمل کرنے کے بعد میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔لینن نے کہا کہ ”اچھا۔ یہ بھی اچھا ہو گا کہ آپ پارٹی کی ذمہ دار خواتین کامریڈز کو ایک میٹنگ میں آگاہ کریں اور ان سے گفتگو کریں۔ صد افسوس کہ کامریڈ اینیسا یہاں موجود نہیں۔ وہ بیمار ہیں اور کوہ قاف گئی ہوئی ہیں۔ بحث مباحثہ کے بعد اس مقالے کو لکھیں۔ ایک کمیٹی اس کام کو دیکھے گی اور پھر ایک مجلسِ عاملہ حتمی فیصلہ کرے گی۔ میں صرف اہم نکات پر ہی اپنی سفارشات دوں گا جن میں، میں آپ کے ساتھ پوری طرح متفق ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کام ہمارے موجودہ تحریکی اور پروپیگنڈہ کام میں بھی اہم ثابت ہو گا تاکہ تحرک پیدا ہو اور جدوجہد کامیاب ہو۔“”اس مقالے میں یہ باور کرانا بہت ضروری ہے کہ خواتین کی حقیقی آزادی صرف کمیونزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ آپ نے خاص طور پر خواتین کی سماجی اور انسانی حیثیت کے اٹوٹ دھارے کو ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے جوڑنا ہے۔ یہ بورژوا ’خواتین کی تحریک آزادی‘ کے خلاف ایک مضبوط حد بندی ہوگی۔ یہ ہمیں خواتین کے سوال کو سماجی، محنت کشوں کے سوال سے جوڑ کر دیکھنے کی بنیادیں فراہم کرے گا اور یہ سوال ہمیشہ کے لئے پرولتاری طبقاتی جدوجہد اور انقلاب سے جڑ جائے گا۔ کمیونسٹ خواتین تحریک کو ایک عوامی تحریک ہونا چاہیے، عمومی عوامی تحریک کا حصہ۔ صرف پرولتاریہ کا ہی نہیں بلکہ تمام استحصال زدہ اور کچلی ہوئی عوام کی تحریکوں کا،ان سب کا جو سرمایہ داری یا بالاتر طبقے کے ظلم کا شکار ہیں۔ یہی خواتین تحریک کی پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد اور اس کے تاریخی ہدف میں حقیقی اہمیت ہے۔۔۔ایک کمیونسٹ سماج کی تعمیر۔ ہمیں حقیقی طور پر فخر ہونا چاہیے کہ نسوانی انقلاب کا پھول ہماری پارٹی، ہماری کامنٹرن میں موجود ہے۔ لیکن یہ حقیقت فیصلہ کن نہیں، ہمیں قصبوں اور شہروں میں لاکھوں کروڑوں محنت کش خواتین کو اپنی جدوجہد کے لئے اور خاص طور پر سماج کی کمیونسٹ از سرِ نو تعمیر کے لئے جیتنا ہے۔ خواتین کے بغیر کسی حقیقی عوامی تحریک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔”ہم اپنا تنظیمی لائحہ عمل اپنے نظریات سے کشید کرتے ہیں۔ ہمیں کمیونسٹ خواتین کی کسی علیحدہ تنظیم کی ضرورت نہیں! جو خاتون کمیونسٹ ہے وہ پارٹی کی ممبر ہے بالکل اسی طرح جس طرح سے ایک مرد ممبر ہے۔ ان کے مساوی حقوق اور فرائض ہیں۔ اس حوالے سے دو رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن ہمیں حقیقت سے آنکھیں نہیں موندنی چاہئیں۔ پارٹی میں مخصوص کام کے لئے گروہ، کمیشن، کمیٹیاں، سیکشن یا ان کو جو بھی نام دیا جائے، موجود ہونے چاہیے جن کا مخصوص مقصد ہی خواتین کی وسیع تر پرتوں میں کام کرنا، انہیں پارٹی میں لانا اور ان کو پارٹی کے اثرورسوخ میں رکھنا ہو۔ ظاہر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ خواتین میں کام کو منظم کیا جائے۔ ہمیں بیدار خواتین کو سکھانا ہے، انہیں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں پرولتاری جدوجہد کے لئے جیتنا ہے اور انہیں اس کام کے لئے تیار کرنا ہے۔ جب میں یہ بات کرتا ہوں تو میرے ذہن میں صرف پرولتاری خواتین ہی موجود نہیں جو ملوں میں کام کرتی ہیں یا خاندان کے لئے کھانے بناتی ہیں۔”میرے ذہن میں کسان خواتین اور درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں کی خواتین بھی شامل ہیں۔ وہ بھی سرمایہ داری کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہیں اور خاص طور پر جنگ کے بعد سے تو حالات اور بھی زیادہ خراب ہیں۔ ان بے شمارخواتین کی سیاست میں عدم دلچسپی اور عمومی غیر سماجی اور پست شعوری نفسیات، ان کی سرگرمیوں کی محدودیت اور ان کی پوری زندگی کا عمومی طرز ناقابلِ فراموش حقائق ہیں۔ ان کو نظر انداز کرنا بیوقوفی ہو گی، بہت بڑی بیوقوفی۔ ہمارے اپنے گروہ ہونے چاہیے جو ان میں کام کریں، سرگرمیوں کا مخصوص طریقہ کار ہونا چاہیے اور تنظیم کاری کی مخصوص اقسام ہونی چاہیے۔ یہ بورژوا ’تحریک نسواں‘ نہیں بلکہ عملی انقلابی حکمت ہے“۔میں نے لینن کو بتایا کہ اس کے دلائل میرے لئے بہت حوصلہ افزا ہیں۔ کئی کامریڈز جن میں بہت اچھے کامریڈز بھی شامل ہیں، پارٹی میں خواتین کے حوالے سے منظم کام کے لئے مخصوص گروہ بنانے کے شدید مخالف ہیں۔ وہ اس اقدام کی یہ کہہ کر مذمت کرتے ہیں کہ یہ ”خواتین کی آزادی“ کی طرف، سوشل ڈیموکریسی کی طرف واپسی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کیونکہ کمیونسٹ پارٹیاں خواتین کو مساوی حقوق دیتی ہیں اس لئے انہیں عمومی طور پر بغیر کسی تفریق کے تمام محنت کشوں میں کام کرنا چاہیے۔ مرد اور خواتین کی طرف (سیاسی)رویہ یکساں ہونا چاہیے۔ لینن نے تحرک اور تنظیم کے حوالے سے جن معروضی مسائل کا اظہار کیا ہے،اگر ان کے متعلق بات کی جائے تو اس نقطہ نظر کے حامل لوگ اسے موقع پرستی، دستبرداری اور بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔لینن نے کہا کہ ”یہ مظہر نہ تو نیا ہے اور نہ ہی حتمی ہے۔ اس وجہ سے گمراہ نہ ہو جانا۔ کیوں سوویت یونین میں بھی پارٹی میں مردوں کے برابر خواتین موجود نہیں ہیں؟ کیوں ٹریڈ یونینز میں خواتین کی شرح انتہائی قلیل ہے؟ یہ حقائق ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خواتین میں عوامی کام کے حوالے سے مخصوص گروپوں کی ناگزیریت کی مخالفت ہمارے کمیونسٹ ورکرز پارٹی کے اچھے دوستوں کا بہت اصولی، بہت ریڈیکل رویہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ صرف ایک مخصوص ورکرز یونین کا منظم ہونا ہی درست ہے۔ مجھے پتہ ہے۔ اصولوں کی بات بہت سارے انقلابی خیالات کے حامل لیکن متذبذب افراد ہی کرتے ہیں،جب مکمل سمجھ بوجھ نہیں ہوتی یعنی جب ذہن ان حقائق کو قبول کرنے سے انکاری ہو جائے جن پر دھیان دینا لازم ہے۔ ’اصولوں کی شفافیت‘ کے ایسے چوکیدار کس طرح سے ہماری انقلابی پالیسی کی تاریخی ضرورت کے ساتھ نمٹتے ہیں؟ ان کے تمام دلائل ناقابلِ فراموش حقائق کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ ہم لاکھوں کروڑوں خواتین کے بغیر کبھی بھی پرولتاریہ کی آمریت قائم نہیں کر سکتے۔ نہ ہی ہم ان کے بغیر کمیونسٹ (سماج کی) تعمیرِ نو کر سکتے ہیں۔ ہمیں ان تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے پڑھنا اور کھوجنا چاہیے۔فوری مطالبات”اس وجہ سے ہم خواتین کی بھلائی کے لئے مطالبات پیش کرنے میں بالکل درست ہیں۔ یہ کوئی کم از کم پروگرام نہیں اور نہ ہی سوشل ڈیموکریٹک یا دوسری انٹرنیشنل کی طرز کا اصلاحی پروگرام ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ بورژوا زی اور اس کی ریاست ہمیشہ قائم و دائم رہے گی یا بہت طویل عرصہ چلے گی۔ نہ ہی یہ خواتین کے جمِ غفیر کو اصلاحات سے مطمئن کرنے اور انقلابی جدوجہد سے منحرف کرنے کی کوئی چال ہے۔ یہ ایسا کوئی قدم نہیں اور نہ ہی کوئی اصلاح پسند ڈرامہ ہے۔ ہمارے مطالبات صرف عملی نتائج ہیں جنہیں ہم نے بورژوا نظام میں سسکتی بلکتی اورشرمناک ذلت میں گھری خواتین سے کشید کیا ہے۔ ہم عملی طور پر یہ بتا رہے ہیں کہ ہمیں استحصال زدہ خواتین کی ضروریات کا ادراک ہے، ہمیں مردوں کی استحقاقی حیثیت کا ادراک ہے اور ہم نفرت، ہاں نفرت کرتے ہیں اور ہم ان تمام چیزوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جومحنت کش خواتین، مزدور کی بیوی، کسان عورت، غریب کی بیوی اور کئی حوالوں سے نجی ملکیت رکھنے والے طبقات کی عورت کا بھی استحصال کرتی ہیں اور انہیں پریشان کرتی ہیں۔ بورژوا سماج سے ہم خواتین کے لئے جو حقوق اور سماجی اقدامات مانگتے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم خواتین کی حیثیت اور مفادات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ہم پرولتاری آمریت میں ان کا تحفظ کریں گے۔ مدہوش سرپرست اصلاح پسندوں کی طرح نہیں۔ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ لیکن انقلابی ہونے کے ناطے ہم خواتین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بطور مساوی (انسان)معیشت اور نظریاتی بالائی ڈھانچے کی تعمیرِ نو میں ساتھ دیں“۔میں نے لینن کو یقین دلایا کہ میرے بھی یہی جذبات ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان (جذبات) کی شدید مخالفت کی جائے گی۔ متزلزل اور ڈرپوک اذہان ان کو موقع پرستی سمجھتے ہوئے مخالفت کریں گے۔ پھر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کے حوالے سے ہمارے موجودہ مطالبات کی غلط تفہیم وتشریح کیے جانے کا خدشہ ہے۔لینن نے تھوڑا تنگ ہو کر کہا کہ ”پھر کیا ہوا؟ یہ خطرہ تو ہمارے ہر کام، ہر لفظ میں موجود ہے۔ اگر ہم نے ضروری اور مدلل کام کرنے سے اس طرح ڈر کر بدک جانا ہے تو بہتر ہے کہ ہم ہندوستانی راہب بن جائیں۔ ہمیں غیر متزلزل رہنا ہے، ہم کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے ورنہ ہم اپنے بلند ترین اصولوں سے گر جائیں گے! ہمارا کام صرف یہی نہیں کہ ہم کیا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ ہمارا کام یہ بھی ہے کہ ہم کس طرح سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں نے اس حوالے سے وضاحت کر دی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ خواتین کے حوالے سے مطالبات کے پروپیگنڈے میں ہمیں خبطی نہیں ہونا چاہیے۔ نہیں، ہمیں حالات کی مناسبت سے ان اور دیگر مطالبات کے لئے بھی جدوجہد کرنی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا تعلق ہمیشہ پرولتاریہ کے عمومی مفادات سے ہونا چاہیے۔”اس طرح کا ہر مسئلہ ہمیں مٹھی بھر (نام نہاد) قابلِ عزت بورژوا اور ان کے عزت دار اصلاح پسند حواریوں کے مدِ مقابل کھڑا کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے بعد الذکر یا تو ہماری قیادت میں جدوجہد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو انہیں پسند نہیں یا پھر اپنا بھیس نوچ پھینکتے ہیں۔ اسی لئے جدوجہد ہمیں ان سے علیحدہ کرتے ہوئے ہمارا کمیونسٹ چہرہ عیاں کر تی ہے۔ اس سے ہمیں خواتین کا اعتماد حاصل ہو گا جو محسوس کرتی ہیں کہ مرد کی بالادستی، آجر کی قوت اور عمومی طور پر پورا بورژوا سماج ان کے استحصال، غلامی اور کچلے جانے کا باعث ہے۔سب سے دھوکہ کھانے اور بے یارومددگار ہونے کے بعد محنت کش خواتین کو احساس ہوتا ہے کہ انہیں ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنی پڑے گی۔ کیا مجھے اور آپ کو کھلے بندوں اس بات کا اظہار کرنا لازمی نہیں کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو ہمارے نصب العین یعنی اقتدار کے حصول اور پرولتاریہ کی آمریت کے قیام سے ہر صورت منسلک ہونا چاہیے؟ اس وقت یہ ہمارا اولین فریضہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔یہ واضح ہے، بالکل واضح ہے۔ لیکن محنت کش خواتین کی وسیع تر پرتیں ہماری طرف اس لئے نہیں کھنچی چلی آئیں گی کہ ہم اسی ایک مطالبے کا راگ الاپ رہے ہیں چاہے ہم جیریکو کے صور بھی پھونکتے رہیں (یہودی مذہب کے مطابق جیریکو کی قدیم جنگ میں اسرائیلیوں نے اتنے زور سے صور پھونکے کہ شہر کی دیواریں منہدم ہو گئیں)۔ نہیں، ہزار بار نہیں! خواتین کے اذہان میں ہمیں اپنی سیاسی اپیل کو محنت کش خواتین کے آلام و مصائب، ضروریات اور خواہشات کے ساتھ جوڑنا ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پرولتاری آمریت کا مطلب مردوں کے ساتھ قانونی اور عملی، خاندان میں، ریاست اور سماج میں مساوات ہو گا اور اس کا مطلب بورژوازی کی طاقت کا مکمل خاتمہ ہو گا“۔میں نے برجستہ کہا کہ ”سوویت روس اس کا عملی ثبوت ہے۔ یہ ہماری سب سے بڑی مثال ثابت ہو گا!“لینن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”سوویت روس خواتین کے لئے ہمارے مطالبات کو اجاگر کرتا ہے۔ پرولتاری آمریت میں وہ پرولتاریہ اور بورژوازی کے درمیان کشمکش میں پھنسی ایک شے نہیں رہی ہیں۔ ایک مرتبہ ان (مطالبات) پر عمل ہو جائے تو وہ کمیونسٹ سماج کی تعمیر کے لئے اینٹوں کا کردار ادا کریں گی۔ (نظریات کے) دوسری طرف کھڑی خواتین کو پتہ چلے گا کہ پرولتاریہ کا اقتدار پر قبضہ کیوں ضروری ہے۔ ان کی سماجی حیثیت میں یہاں (کمیونزم) اور وہاں (بورژوا سماج) کے فرق کو ہر صورت وسیع تر تسکین کے ذریعے واضح ہونا چاہیے تاکہ پرولتاریہ کی انقلابی طبقاتی جدوجہد کے لئے خواتین کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ کمیونسٹ پارٹیوں اور ان کی فتح کے لئے درست نظریاتی اورتنظیمی بنیادوں پر خواتین کا تحرک انتہائی اہم سوال ہے۔ لیکن ہمیں اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے۔ ہمارے قومی سیکشن اس سوال کے حوالے سے ابھی بھی کم شعور یافتہ ہیں۔ وہ کمیونسٹ قیادت میں محنت کش خواتین کی تحریک کے حوالے سے غیر فعال تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں رہے کہ ایسی عوامی تحریک کی تعمیر اور اس کی قیادت پارٹی کی پوری سرگرمی کا حصہ ہے، یہاں تک کہ پوری سرگرمیوں کا نصف حصہ ہے۔ کمیونسٹ خواتین کی مثبت، مضبوط اور وسیع تحریک کی ضرورت اور اہمیت کا انہیں کبھی کبھی ادراک ہوتا ہے لیکن وہ پارٹی کے لئے مسلسل ذمہ داری سے یہ کام کرنے کے بجائے صرف ناقابلِ عمل لفاظی کر رہے ہیں۔مردوں کے بارے میںوہ یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین میں تحرک اور پروپیگنڈہ اور ان کو ابھارنے اور انقلابی بنانے کا کام ثانوی ہے اور صرف خواتین کمیونسٹوں کی ذمہ داری ہے۔ کسی اور کو نہیں بلکہ آخری الذکر کو مسئلے کا تیز اور ٹھوس حل نہ ہونے پر قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر غلط ہے! یہ کھلم کھلا علیحدگی ہے۔ جیسا کہ فرانسیسی کہتے ہیں یہ خواتین کی الٹ مساوات ہے۔ ہمارے قومی سیکشنز کے غلط رویے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ (میں سوویت روسی سیکشن کی بات نہیں کر رہا)۔ حتمی تجزیے میں یہ خواتین اور ان کی کامیابیوں کو کم تر سمجھنا ہے۔ بس یہی وجہ ہے! بدقسمتی سے ہم ابھی بھی اپنے کئی کامریڈز کے حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ ’کمیونسٹ کو کھرچو تو نیچے سے دقیانوسی نکلے گا‘۔ یہ درست ہے کہ آپ کو حساس حصوں کو کھرچنا پڑے گا جیسے کہ خواتین کے حوالے سے ان کی سوچ۔ کیا اس سے بھی بڑا کوئی ثبوت چاہیے کہ عمومی طور پر ایک مرد سکون سے ایک عورت کو معمولی، مسلسل اکتاہٹ، طاقت اور وقت کو خرچ کر دینے والے کام میں فنا، اس (عورت) کی روحانی قوت کمزور ہوتی، ذہن کند ہوتا، دل کی دھڑکن مدہم ہوتی اور اس کی قوت ارادی ڈھیلی ہوتی دیکھتا ہے؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں ان بورژوا خواتین کی بات نہیں کر رہا جوگھر کا سارا کام اور اپنے بچوں کی پرورش نوکروں کے کندھوں پر ڈال دیتی ہیں۔ جو میں نے کہا ہے اس کا اطلاق خواتین کی اکثریت پر ہوتا ہے جن میں مزدوروں کی عورتیں بھی شامل ہیں چاہے وہ اپنا سارا دن فیکٹریوں میں گزارتی اور پیسے کماتی ہیں۔”بہت کم خاوند، یہاں تک کہ پرولتاریوں میں بھی، یہ سوچتے ہیں کہ اپنی بیویوں کی پریشانیوں اور بوجھ کو کتنا کم یا مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے اگر وہ صرف ’خواتین کے کام‘ میں ہاتھ ہی بٹا لیں۔ لیکن نہیں، یہ تو ’خاوند کے استحقاق اور وقار‘ کے خلاف ہو گا۔ اس کا مطالبہ ہے کہ اسے آرام اور سکون کی ضرورت ہے۔ ایک عورت کی گھریلو زندگی کا مطلب اپنے آپ کو روزانہ ہزاروں معمولی مسائل پر قربان کرنا ہے۔ اس کے خاوند، آقا اور مالک کے قدیم حقوق بغیر کسی دھیان کے زندہ رہتے ہیں۔ معروضی طور پر اس(مرد) کا غلام اس سے بدلہ لیتا ہے اور وہ بھی ڈھکے چھپے انداز میں۔ اس(بیوی) کا پست شعور اور خاوند کے انقلابی نظریات سے عدم جانکاری خاوند کے انقلابی خیالات اور جذبہِ جدوجہد میں حائل ہو جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے کیڑے مکوڑوں کی طرح آہستہ لیکن یقینی طور پر کاٹتے اور بغیر اطلاع کئے کمزور کر تے جاتے ہیں۔مجھے مزدوروں کی زندگی کا پتہ ہے اور میں نے یہ صرف کتابوں سے ہی نہیں سیکھا۔ خواتین میں ہمارے کمیونسٹ کام اور ہمارے عمومی سیاسی کام میں مردوں کی (ضروری) بے تحاشہ درس و تدریس شامل ہیں۔ ہمیں ہر صورت پارٹی اور عوام میں پرانی غلام ملکیت سوچ کو ختم کرنا ہے۔ یہ ہمارے کئی سیاسی کاموں میں سے ایک ہے، ایک ایسا سیاسی کام جس کے لئے فوری طور پر منظم کامریڈز درکار ہیں، مرد اور خواتین دونوں جن کی خواتین میں پارٹی کام کے لئے مکمل نظریاتی اور عملی تربیت ہو“۔نئی زندگی کے کروڑوں معمار”موجودہ سوویت روس میں حالات کے حوالے سے میرے سوال پر لینن نے کہا کہ ”ظاہر ہے کہ پرولتاری آمریت کی حکومت کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونینز کے ساتھ مل کر پوری کوشش کر رہی ہے کہ مرد اور خواتین کے دقیانوسی خیالات اور پرانی غیر کمیونسٹ نفسیات کو ختم کیا جائے۔ یہ بتانا ضروری نہیں کہ مرد اور خواتین قانون کی نظر میں بالکل برابر ہیں۔ اس مساوات کو تمام (سماجی) مظاہر میں یقینی بنانے کی مخلص کوشش واضح ہے۔ ہم معاشیات، انتظامیہ، قانون سازی اور امورِ ریاست میں خواتین کی خدمات لے رہے ہیں۔ تمام کورسز اور تعلیمی ادارے ان کے لئے کھلے ہیں تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ اور سماجی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ ہم عوامی کچن اور عوامی دعوت خانے، لانڈریاں اور مرمت کی دکانیں، دارالاطفال، کنڈر گارٹن، بچوں کے گھر اور ہر قسم کے تعلیمی ادارے منظم کر رہے ہیں۔ غرضیکہ، ہم اپنے پروگرام کے مطابق بہت سنجیدہ ہیں کہ گھریلو اور تعلیمی ذمہ داریوں کو انفرادی گھرانے سے سماجی کیا جائے۔ یعنی عورت اپنی پرانی گھریلو غلامی اور خاوند پر مکمل انحصار سے آزاد ہو رہی ہے۔ اسے اپنی بھرپور صلاحیتیں اور میلان سماج کو دینے کی صلاحیت دی جا رہی ہے۔ بچوں کی نشونما کے لئے گھر سے بہتر سہولیات دی جا رہی ہیں۔ ہم نے خواتین محنت کشوں کے حوالے سے دنیا کی سب سے زیادہ ترقی پسند قانون سازی کی ہے اور اس کا نفاذ منظم مزدور نمائندے کر رہے ہیں۔ ہم زچگی گھر، ماں بچہ گھر، ماؤں کے لئے صحت سنٹرز، نومولود اور بچوں کی دیکھ بھال کے کورسز، ماں اور بچے کی دیکھ بھال کے لئے کورسز وغیرہ منظم کر رہے ہیں۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ضرورت مند اور بیروزگار خواتین کی دیکھ بھال کی جائے۔”ہمیں اندازہ ہے کہ محنت کش خواتین کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ سب بھی بہت تھوڑا ہے اور ابھی حقیقی آزادی کے لئے ناکافی ہے۔ لیکن جو کچھ زار شاہی سرمایہ دارانہ روس میں تھا اس حوالے سے یہ بہت بڑا (انقلابی) قدم ہے۔ پھر جہاں سرمایہ داری پوری اجارہ داری کے ساتھ موجود ہے اس کے مقابلے میں بھی یہ بہت زیادہ ہے۔ یہ درست سمت کی جانب سفر کا آغاز ہے اور ہم اسے مستقل بنیادوں اور پوری طاقت کے ساتھ مزید ترویج دیں گے۔ آپ سب جو باہر موجود ہیں اس حوالے سے مکمل مطمئن رہیں۔ کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ہم لاکھوں کروڑوں خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔ ذرا سوچیں، ایک ایسا ملک جس میں کسان آبادی کا 80 فیصد ہیں اس کے لئے اس کے کیا معنی ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر زراعت کا مطلب انفرادی گھرداری اور خواتین کی غلامی ہے۔ ہمارے مقابلے میں آپ لوگ زیادہ بہتر صورتحال میں ہوں گے اگر آپ کا پرولتاریہ بالآخر سمجھ جائے کہ تاریخی طور پراقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے، انقلاب کے لئے یہ بہترین وقت ہے۔”اس دوران شدید مسائل کا شکار ہونے کے باوجود ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مسائل کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری قوتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عملی ضرورت بھی ہمیں خواتین کی آزادی کے لئے مزید راہیں ہموار کرنے پر مجبور کرے گی۔ سوویت ریاست کے ساتھ انقلابی یکجہتی میں حیران کن کارنامے سر انجام دیے جائیں گے۔ یقینا انقلابی یکجہتی سے میری مراد کمیونسٹ ہے بورژوا نہیں جس کا پرچار اصلاح پسند کر رہے ہیں، جن کا انقلابی جوش و خروش سستے سرکے کی بو کی طرح بخارات بن چکا ہے۔ انفرادی پہل گامی جو آگے بڑھ کر اجتماعی سرگرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے، اس کا انقلابی یکجہتی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پرولتاری آمریت کے تحت دیہی علاقوں میں بھی کمیونزم کی ترویج کے ذریعے خواتین آزاد ہوں گی۔ اس حوالے سے مجھے صنعت اور زراعت کی برق کاری سے قوی امیدیں ہیں۔ یہ ہے ہمارا بڑا منصوبہ! اس راہ میں مشکلات ہیں، دیو ہیکل مشکلات۔ عوام میں سوئی ہوئی قوتوں کو جگاتے ہوئے اور ان کی تربیت کرتے ہوئے ہم ان (مشکلات) پر فاتح ہوں گے۔ لاکھوں کروڑوں خواتین کو ہر صورت اس کام کا حصہ بننا ہے“۔کسی نے پچھلے دس منٹ میں دو مرتبہ دروازہ کھٹکھٹایا لیکن لینن نے اپنی بات جاری رکھی۔ اب اس نے دروازہ کھولا اور اونچی آواز میں کہا کہ ”میں آ رہا ہوں!“میری طرف مڑ کر لینن مسکرایا اور بولا کہ ”آپ کو معلوم ہے کلارا، میں اس بات کا فائدہ اٹھاؤں گا کہ میں ایک خاتون کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا اور اپنی دیری کے لئے بدنامِِ زمانہ نسوانی باتونی پن کا بہانہ کروں گا۔ حالانکہ اس مرتبہ عورت کے بجائے ایک مرد تھا جو باتیں کرتا چلا گیا۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ تم ایک بہت اچھی سامع ہو۔ لیکن شاید یہی وجہ تھی کہ میں نے طویل گفتگو کی“۔اس مزاحیہ تبصرے کے بعد لینن نے مجھے اپنا کوٹ پہننے میں مدد کی۔ اس نے خلوص سے مشورہ دیا کہ ”آپ کو اور زیادہ گرم کپڑے پہننے چاہیے۔ ماسکو اسٹٹ گارٹ نہیں ہے۔ کسی کو آپ کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ بیمار نہ ہو جائیے گا۔ خدا حافظ“۔اس نے میرا ہاتھ گرمجوشی سے ملایا۔دو ہفتوں بعد میری لینن سے پھر خواتین تحریک پر بات ہوئی۔ لینن مجھ سے ملنے آیا۔ ہمیشہ کی طرح اس کی یہ آمد بھی غیر متوقع تھی۔ یہ غیر اعلانیہ آمد تھی اور فاتح انقلاب کے قائد کی دیو ہیکل ذمہ داریوں کے دوران ایک خفیف تعطل کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ لینن بہت تھکا ہوا اور پریشان تھا۔ رینگل کا ابھی تک سدِ باب نہیں ہو سکا تھا اور بڑے شہروں کو اشیائے خوردونوش کی فراہمی سوویت حکومت پر تلوار بن کر لٹکی ہوئی تھی۔لینن نے پوچھا کہ مقالہ کہاں تک پہنچا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ اس مسئلے پر ایک بڑا کمیشن کیا گیا ہے جس میں اس وقت ماسکو میں موجود تمام چوٹی کی کمیونسٹ خواتین نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مقالہ تیار ہے اور اب ایک چھوٹی کمیٹی میں اس پر بحث مباحثہ ہو گا۔ لینن نے مشورہ دیا کہ تیسری عالمی کانگریس تک مقالہ تیار کر لیا جائے تاکہ کانگریس اس معاملے کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر لے۔ ایک یہی عمل بہت سارے کامریڈز کے تعصبات کو مٹا دے گا۔ بہرحال، کمیونسٹ خواتین کو اس معاملے میں مستعدی سے پہل کرنی چاہیے۔لینن نے بلند آواز میں کہا کہ ”چڑیوں کی طرح چہچہانا نہیں بلکہ جنگجو کی طرح اونچی آواز میں صاف بات کرنی ہے۔ کانگریس کوئی دیوان خانہ نہیں جہاں خواتین اپنے جلوے دکھاتی رہیں جیسا ہم نے ناولوں میں پڑھا ہے۔ کانگریس ایک میدانِ جنگ ہے جہاں ہم انقلابی اقدامات کے لیے درکار علم کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ دکھا دوکہ آپ جدوجہد کر سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پہلے اپنے دشمنوں کے ساتھ لیکن ضرورت پڑنے پر پارٹی میں بھی۔ ظاہر ہے خواتین کی وسیع تر پرتوں کا سوال ہے۔ ہماری روسی پارٹی تمام تجاویز اور حکمتِ عملی کی حمایت کرے گی جس کے ذریعے عوام کو جیتا جا سکتا ہے۔ اگر خواتین ہمارے ساتھ نہیں تو پھر ردِ انقلابی انہیں ہمارے خلاف کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، ہمیں یہ حقیقت اپنے ذہن میں رکھنی ہے“۔میں نے لینن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں خواتین کو ہر صورت جیتنا ہے چاہے سٹراسنڈ کے بقول انہیں آسمان کے ساتھ زنجیروں سے باندھا ہوا ہو۔ یہاں انقلاب کے مرکز میں پُرہیجان اور تیز رو زندگی میں میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ محنت کش خواتین میں کام کے حوالے سے ایک بڑا عالمگیر مشترکہ طریقہ کار اپنایا جائے۔ اس (خیال) کی بنیاد آپ کی منعقد کردہ غیر جانبدار کانفرنسیں اور کانگریسیں ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم انہیں قومی سے عالمی سطح پر لے جائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور اس کے نتائج نے مختلف طبقات اور سماجی پرتوں کی وسیع تر خواتین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان میں بے چینی ہے۔ ان میں تحرک ہے۔روزگار کے تحفظ کی پریشانیاں اور مقصدِ حیات کی تلاش نے ان کے سامنے ایسے مسائل لا کھڑے کئے ہیں جن پر ماضی میں اکثریت شاید ہی سوچتی تھی اور محض مٹھی بھر کو ہی ان کا ادراک ہوتا تھا۔ بورژوا سماج ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہے۔ صرف کمیونزم ہی یہ کام کر سکتا ہے۔ہمیں سرمایہ دارانہ ممالک میں خواتین کی وسیع تر پرتوں کا شعور اجاگر کرنا چاہیے اور اس مقصد کے لئے ایک غیر جانبدار عالمی خواتین کانگریس منعقد کرنی چاہیے“۔لینن نے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ وہ بھنچے ہوئے ہونٹوں کے سا تھ خیالات میں کھویا اس مسئلے پر غور کرتا رہا۔بالآ خر اس نے کہا کہ ”ہاں ہمیں یہ کام کرنا چاہیے۔ منصوبہ تو اچھا ہے۔ لیکن ایک اچھا منصوبہ چاہے کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو ناکام ہے اگر اس کو کامیابی کے ساتھ پایہئ تکمیل تک نہ پہنچایا جائے۔ کیا آپ نے سوچا ہے اس (منصوبے) کی تکمیل کیسے کرنی ہے؟اس حوالے سے آپ کے کیا خیالات ہیں؟“میں نے لینن کے سامنے اپنے خیالات تفصیل سے بیان کئے۔ پہلے تو ہمیں مختلف ممالک کی کمیونسٹ خواتین کی ایک کمیٹی بنانی چاہیے جو ہمارے قومی سیکشنز کے ساتھ قریبی اور مسلسل رابطے میں رہے۔ یہ کمیٹی کانگریس کی تیاری، انعقاد اور فعالیت پر کام کرے گی۔ یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ کمیٹی اپنے آغاز سے ہی سرکاری طور پر کھلم کھلا کام کرے گی کہ نہیں۔ بہرحال کمیٹی ممبران کا پہلا کام یہ ہو گا کہ وہ ہر ملک میں منظم محنت کش خواتین کی قیادت، پرولتاری خواتین کی سیاسی تحریک، ہر قسم کی بورژوا خواتین تنظیموں اور بالآخر معروف خواتین طبیبوں، اساتذہ، لکھاریوں وغیرہ سے رابطے قائم کریں اور قومی غیر جانبدار ابتدائی کمیٹیاں قائم کریں۔ قومی کمیٹیوں کی ممبران پر مشتمل ایک عالمی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو عالمی کانگریس کی تیاری اور انعقاد، ایجنڈے، وقت اور جگہ کا تعین کرے گی۔میرے خیال میں کانگریس کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے تمام شعبوں اور کاموں میں خواتین کی شمولیت کے حق کی بات کرے۔ اس سے بیروزگاری، مساوی کام کے لئے مساوی اجرت، آٹھ گھنٹے کام کا دن اور خواتین کے لئے لیبر حفاظتی قوانین، ٹریڈ یونینز کا انعقاد، ماں اور بچے کے لئے سماجی دیکھ بھال، ماؤں اور گھریلو خواتین کی مدد کے لئے سماجی اقدامات وغیرہ کے سوالات سے نپٹا جائے گا۔ پھر، ایجنڈے میں شادی بیاہ میں خواتین کی حیثیت اور خاندانی قوانین اور عوام اور سیاسی قانون کے حوالے سے بھی بات ہونی چاہیے۔ان تجاویز پر بات کرنے کے بعد میں نے بتایا کہ کس طرح مختلف ممالک میں قومی کمیٹیاں میٹنگز اور پریس کے ذریعے ایک منظم کیمپیئن چلا کر کانگریس کی تیاریاں کریں گی۔ یہ کیمپیئن زیادہ سے زیادہ خواتین کو متحرک کرنے کے لئے بہت اہم ہے تاکہ جن مسائل کو بحث میں لایا جانا ہے ان کے سنجیدہ مطالعے کے لئے سمت دی جائے اور ان کی توجہ کانگریس اور حتمی طور پر کمیونزم اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پارٹیوں کی طرف مبذول کی جائے۔یہ اہم ہے کہ کیمپیئن سماج کی تمام پرتوں کی خواتین تک پہنچے۔ یہ لازمی ہے کہ کانگریس میں تمام متعلقہ تنظیموں اور خواتین کی عوامی میٹنگز میں مندوبین کی شمولیت اور نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ کانگریس ایک بورژوا پارلیمنٹ کے برعکس ایک ”مقبول نمائندہ تنظیم“ ہو گی۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد صرف کمیونسٹ خواتین کو اکٹھا کرنا ہی نہیں بلکہ تیاری کے کام میں انہیں ایک سربراہ قوت بنانا ہے اور اس حوالے سے ہمارے سیکشنز کی پرجوش حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات عالمی کمیٹی، کانگریس اور اس کے وسیع تر کام پر بھی لاگو ہوتی ہے۔کمیونسٹ مقالے اور ایجنڈے میں موجود تمام چیزوں پر قراردادیں کانگریس میں پیش ہونی چاہیے۔ ان میں الفاظ کا چناؤ مناسب اور دلائل میں درکار سماجی حقائق میں ادبی مہارت ہونی چاہیے۔ ان مقالوں پر پہلے کامنٹرن کی مجلسِ عاملہ میں بحث مباحثہ اور منظوری ہونی چاہیے۔ کانگریس کا کام اور عوامی توجہ کمیونسٹ حل اور نعروں پر مرکوز ہونی چاہیے۔ کانگریس کے بعد ان کی خواتین کی وسیع تر پرتوں میں تحرک اور پروپیگنڈے کے ذریعے ترویج ہونی چاہیے تاکہ وہ خواتین کی عالمی تحریک میں فیصلہ کن بن جائیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سب کے لئے لازم ہے کہ خواتین کمیونسٹ تمام کمیٹیوں اور کانگریس میں یکسوئی سے کام کریں اور ان کے عمل کی بنیاد مدلل اور غیر متزلزل منصوبہ ہو۔ کوئی بھی کام منظور شدہ کاروائی سے باہر نہ ہو۔میری تفصیلی گفتگو کے دوران لینن نے کئی اثبات میں سر ہلایا اور کچھ تبصرے بھی کئے۔انہوں نے کہا کہ ”مجھے ایسا لگتا ہے عزیز کامریڈ کہ آپ نے پورے معاملے کا سیاسی اور تنظیمی نقطہئ نظر سے بغور جائزہ لیا ہے۔ میں پوری طرح متفق ہوں کہ موجودہ حالات میں ایسی کانگریس بہت کچھ حاصل کر سکے گی۔ ہمیں موقع ملے گا کہ ہم خواتین کی وسیع تر پرتوں کو اپنی طرف جیتیں، خاص طور پر مختلف شعبوں اور پیشوں کی خواتین، صنعتی مزدور خواتین اور گھریلو خواتین، اساتذہ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین۔ یہ شاندار ہو گا۔ ذرا سوچیں کہ بڑی معاشی جدوجہد یا سیاسی ہڑتالوں میں کیا ہو گا۔ انقلابی پرولتاریہ کے لئے شعور یافتہ خواتین کا جمِ غفیر کیا کمک ثابت ہو گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم انہیں اپنی طرف جیتیں اور انہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھیں۔ ہمیں بے پناہ فائدہ ہو گا۔ یہ ایک دیو ہیکل تبدیلی سے کم نہیں۔ لیکن آپ ان سوالات سے متعلق کیا کہیں گی؟ اعلیٰ حکام اس کانگریس کی مخالفت کریں گے اور اسے ناکام کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ لیکن شاید ان کے لئے ننگے جبر کے ذریعے ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ وہ جو کچھ بھی کریں آپ نے ڈرنا نہیں۔ لیکن کیا آپ کو یہ خوف نہیں کہ خواتین کمیونسٹ، کمیٹیوں اور کانگریس میں بورژوا اور اصلاح پسند مندوبین کی اکثریت اور زیادہ تجربے سے مغلوب ہو جائیں گی؟پھر اور سب سے اہم، کیا آپ کو ہماری کمیونسٹ کامریڈز کی مارکسی تعلیم پر پورا اعتبار ہے اور کیا آپ پراعتماد ہیں کہ ان میں سے ایک تیز طرار گروہ چنا جا سکتا ہے جو اس جنگ میں سرخرو ہو سکے؟“میں نے لینن کو بتایا کہ مشکل ہے کہ اعلیٰ حکام کانگریس کے خلاف متشدد حربے استعمال کریں۔ چالبازیاں اور بھونڈے ہتھکنڈے ہمارے حق میں ہی جائیں گے۔ ہم کمیونسٹ، غیر کمیونسٹ عناصر کی زیادہ بڑی تعداد اور زیادہ تجربے کا مقابلہ تاریخی مادیت کے سماجی مسائل کے افضل مطالعے اور انہیں اجاگرکرنے کی صلاحیت کی سائنسی برتری سے کر سکتے ہیں، اپنے غیر متزلزل رویے سے کہ ان مسائل کو حل کیسے کیا جائے اور سب سے آخری اور اہم بات کہ ہم روس میں پرولتاری انقلاب کی فتح اور خواتین کی آزادی کے لئے اس کے انقلابی اقدامات کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ ہماری کچھ کامریڈز کی کمزوری اور تربیت میں کمی اور ان کی ناتجربہ کاری کا منصوبہ بند تیاری اور مل جل کر کام کرنے سے ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے میری امید ہے کہ روسی خواتین کامریڈشاندار ثابت ہوں گی۔ وہ ہمارے نیزے کی انی ثابت ہوں گی۔ میں ان کی موجودگی میں کانگریس ٹکراؤ سے زیادہ خطرناک جنگیں مول لے سکتی ہوں۔ ویسے بھی اگر ہم ووٹنگ کے دوران ہار بھی جاتے ہیں تو ہماری جدوجہد کمیونزم کو اجاگر کرے گی اور پروپیگنڈے کے حوالے سے اس کے زبردست اثرات پڑیں گے۔ اور پھر ہمیں مستقبل کے کام میں مدد بھی ملے گی۔لینن دل کھول کر ہنسا اور کہا کہ ”آپ ہمیشہ کی طرح روسی خواتین انقلابیوں کی پرجوش حامی ہیں۔ہاں یہ سچ ہے کہ پرانی محبت بھلائی نہیں جاتی۔ میرا خیال ہے آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ایک شدید جدوجہد کے بعد شکست بھی ایک کامیابی ہو گی، یہ مستقبل میں محنت کش خواتین میں کامیابیوں کے لئے مشعلِ راہ ہو گی۔ تمام حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ خطرہ مول لے لینا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس میں مکمل ناکامی ہو۔ لیکن یقینا مجھے امید ہے کہ (ہمیں) فتح ہو گی اور میں دل کی گہرائیوں سے تمہاری کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔ اس سے ہماری قوتوں میں اضافہ ہو گا، ہماری جدوجہد کا افق وسیع اور مضبوط ہو گا، ہماری صفوں میں نئی جان پڑے گی اور وہ اور زیادہ فعال ہوں گی۔ اس کا ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔ پھر کانگریس بورژوازی اور اس کے حواریوں میں بے چینی، بے یقینی، تضادات اور لڑائیوں کو بڑھاوا بھی دے گی۔ قیاس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اگر سب ٹھیک ہو گیا تو کون ان ’انقلابی لگڑ بگڑوں‘ کے ساتھ بیٹھے گا اور ان کی قیادت میں سوچ بچار کرے گا۔ یہ شائیڈیمان، ڈیٹمن اور لیجیئن کی’اعلیٰ قیادت‘ میں بہادر اورمنظم سوشل ڈیموکریٹ خواتین، پوپ کی بابرکت آشیر باد میں یا لوتھر کی سرشار پاک دامن عیسائی خواتین، برطانوی شاہی خاندان کے مشیر کونسلروں کی بیٹیاں، ریاست کے نئے نامزد کونسلروں کی بیویاں، برطانوی امن پسند خواتین اور حقِ رائے دہی کی پرجوش فرانسیسی حامی ہی ہوں گی۔ کانگریس بورژوا طبقے کے انتشار اور انحطاط کی کیا تصویر ہو گی! ناامید حالات کی کیا عکاسی ہو گی! کانگریس تفرقے میں اضافہ کرتے ہوئے ردِ انقلاب کی قوتوں کو کمزور کرے گی۔ دشمن کی ہر کمزوری کا مطلب ہماری طاقت میں اضافہ ہے۔ میں کانگریس کے حق میں ہوں۔ آپ کو ہمارا ہر ممکن تعاون حاصل ہو گا۔ تو پھر کام شروع کریں اور میں آپ کی جدوجہد کے لئے دل سے دعا گو ہوں“۔پھر ہم نے جرمنی کی صورتحال اور خاص طور پر پرانے سپارٹیسِسٹ اور آزاد بائیں بازو کی آنے والی ”اتحادی کانگریس“ پر گفتگو کی۔ اس کے بعد کام والے کمرے میں متعدد کامریڈز کے ساتھ دوستانہ سلام کرتے ہوئے لینن جلدی میں نکل گیا۔میں بڑی امیدوں کے ساتھ تیاریوں میں لگ گئی۔ لیکن کانگریس منعقد نہ ہو سکی کیونکہ اس کی مخالفت سوویت روس سے باہر سب سے بڑی خواتین کمیونسٹ تحریکوں کی قائدین جرمن اور بلغاریہ کی خواتین کامریڈز نے کی۔ وہ کانگریس کے انعقاد کی یکسر مخالف تھیں۔جب میں نے لینن کو صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ”افسوس، صد افسوس! ان کامریڈز نے خواتین کو ایک نئی اور بہتر امید دلاتے ہوئے پرولتاریہ کی انقلابی جدوجہد میں لانے کا ایک شاندار موقع گنوا دیا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں کب پھر ایسا شاندار موقع دوبارہ ملے گا؟ لوہے پر ضرب اسی وقت لگاؤ جب وہ گرم ہو۔ آپ کو ہر صورت ایسا طریقہ کار تلاش کرنا ہے جس کے ذریعے آپ ان خواتین تک پہنچ سکیں جنہیں سرمایہ داری نے شدید مایوسی میں دھکیل دیا ہے۔ آپ کو ہر صورت ایسا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔ اس انتہائی اہم کام سے کنارہ کش نہیں ہوا جا سکتا۔ کمیونسٹ قیادت میں عوام کے منظم تحرک کے بغیر سرمایہ داری پر نہ تو فتح حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کمیونزم تعمیر کیا جا سکتا ہے۔اور پھر ناگزیر طور پر خواتین کے سوئے ہوئے جمِ غفیر کو تحرک میں لانا پڑے گا“۔******لینن کے بغیر انقلابی پرولتاریہ اپنا پہلا سال گزار چکا ہے۔ اس (انقلابی پرولتاریہ)نے اس (لینن) کے مقصد کی قوت کو ثابت کر دیا ہے۔ اس نے اپنے ذہین قائد کی عظمت کو ثابت کیا ہے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ یہ کتنا بڑا اور ناقابلِ فراموش نقصان ہے۔ توپوں نے اس اداس گھڑی لینن کو سلامی پیش کی جب اس کی دوراندیش زیرک آنکھیں ایک سال پہلے ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی تھیں۔ میں لینن کی آخری آرام گاہ جاتی ماتم کرتی محنت کش عوام کا لامتناہی سمندر دیکھ رہی ہوں۔ ان کا ماتم میرا ماتم ہے، لاکھوں کروڑوں کا ماتم۔ دوبارہ بیدار ہونے والا غم میرے اندر زبردست یادیں جگا رہا ہے جس سے حال کا دکھ مدہم ہو رہا ہے۔ مجھے ایک بار پھر سے لینن کی گفتگو کا ایک ایک لفظ یاد آ رہا ہے۔مجھے اس کے چہرے کا ہر تاثر نظر آ رہا ہے۔۔۔لینن کے مقبرے پر بینر بچھائے جا رہے ہیں۔یہ بینر انقلابی جنگجوؤں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ پھول چڑھائے جا رہے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی اضافی نہیں۔ اور میں ان میں یہ پرانکسار تحریر شامل کر رہی ہوں۔