ایران: کرونا وائرس سے گہرا ہوتا ریاستی بحران Share Tweetکرونا وائرس کی حالیہ وباء سے ایران خاص طور پر شدید متاثر ہوا ہے جس میں ریاستی بیوقوفیوں، غلط بیانی اور امریکی پابندیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس بحران نے گلی سڑی ایرانی سرمایہ داری کو مزید ننگا کر دیا ہے اور ریاست کے خلاف پہلے سے ابلتا شدید عوامی غم و غصہ اب چھلکنے کو تیار ہے۔[Source]9 مارچ پیر کے دن تک ایرانی حکومت کے مطابق کرونا وائرس کے مرض میں 7 ہزار 161 افراد مبتلا ہیں جبکہ 237 کی اموات ہو چکی ہیں۔ ہفتے کے دن تک 16 ہزار افراد مرض لاحق ہونے کے شک میں ہسپتالوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ”سرکاری“ اعداد و شمار حقیقی صورتحال کے عکاس نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف حکومت غلط بیانی کر رہی ہے اور ایران میں مرض کی تشخیص کے لیے درکار کِٹس ہی موجود نہیں اور دوسری طرف مرض میں زیادہ تر مبتلا افراد ہسپتالوں کا رُخ ہی نہیں کر رہے۔ پچھلے تین ہفتوں میں یہ اعدادوشمار تیزی سے بڑھے ہیں اور فوری مستقبل میں ان میں مزید تیز ترین اضافہ متوقع ہے۔ بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ محض پچھلے 24 گھنٹوں میں 43 اموات واقع ہو چکی ہیں۔ مرنے والے افراد میں اب تک فاطمہ رہبر اور محمد علی رمضانی دستک سمیت سات سیاست دان اور حکومتی عہدیداران شامل ہیں۔موجودہ صورتحال دیکھ کر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ محض تین ہفتے پہلے 17 فروری کے دن نائب وزیرِ صحت نے ٹی وی پر آ کر اعلان کیا تھا کہ ایران میں کرونا وائرس موجود ہی نہیں! چند دن بعد ایران سے کینیڈا اور لبنان جانے والے مسافروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو گئی اور مقدس شہر قُم کے چار رہائشیوں کی موت کا ذمہ دار وائرس کو ٹھہرایا گیا۔ اپنے ابتدائی اعلان کے بعد کے عرصے میں ڈپٹی وزیرِ صحت بھی اس وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔وائرس کی سب سے پہلی تشخیص مقدس شہر قُم میں ہوئی جہاں فاطمہ بنت موسیٰ کا مزار واقع ہے۔ ملاؤں کا یہ ماننا ہے کہ بارگاہ بیماروں کو شفاء یاب کرتی ہے اور ا س لیے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں زائرین ملک کے طول و عرض سے یہاں مرادیں لیے پہنچتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ممکنہ طور پر شفایابی کی آس لیے آنے والے ہزاروں افراد کرونا وائرس کا شکار ہوئے اور اب وہ یہ بیماری لے کر واپس اپنے علاقوں اور بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ مقدس شہر سے شروع ہونے والا یہ وائرس اب ایران کے تمام 31 صوبوں میں پھیل چکا ہے۔ اور اب ایرانی مسافر اس وائرس کو بحرین، کینیڈا، لبنان، افغانستان، عمان، عراق، عرب امارات، پاکستان اور کویت تک پھیلا چکے ہیں۔یہ کوئی حادثہ نہیں کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں اس وائرس کا سب سے زیادہ پھیلاؤ ایران میں ہوا ہے۔ وائرس کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی نہ ختم ہونے والی غلطیوں کی داستان مکمل بوسیدگی اور نالائقی کو عیاں کر چکی ہے۔ حکومتی عہدیداران کی نالائقی اور کرپشن، ریاستی اشرافیہ میں دھڑے بندی اور امریکی پابندیوں سے جنم لینے والے خوفناک معاشی مسائل کے نتیجے میں حکومت مکمل طور پر اس صحتِ عامہ کے بحران سے نمٹنے کے لئے نااہل ہے۔حکومتی ردِ عمل: جان لیوا مسائل، بیوقوفانہ اقداماتایران میں وائرس کا داخلہ اور پھیلاؤ روکنے کے لئے اقدامات کے حوالے سے 30 جنوری کوایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ ا نہوں نے چین جانے اور آنے والی تمام پروازیں منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دیگر ممالک نے بھی اسی قسم کے اقدامات کیے، خاص طور پر جب چینی حکومت نے ہوبئے صوبے کو مکمل قرنطینہ کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن حکومتی فیصلہ ہونے کے باوجود پروازیں منسوخ نہیں ہوئیں۔ پاسداران سے قریبی تعلق میں ماہان ائرلائن نے خاص طور پر حکم عدولی کی۔ اگرچہ کئی ائرلائنز نے چینی پروازیں بند کر دیں لیکن ماہان ائرلائن نے چین اور تہران کے درمیان پروازیں بڑھا دیں تاکہ اور زیادہ مال بنایا جا سکے۔ صحت عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے پاسداران کی یہ واضح حکم عدولی کی بنیاد ایران کی معاشی بربادی ہے جس میں امریکی پابندیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وزارتِ صحت کے نمائندے جہان پور نے بھی 2 فروری کو کہا کہ ”اگر پروازیں جاری رہتی ہیں تو یقینی طور پر وزارتِ صحت اس معاملے پر حکومت سے بات کرے گی“۔ اس بیان کے باوجود 55 پروازوں نے اڑانیں بھریں اور بالآخر 23 فروری کے دن منسوخی کو یقینی بنایا گیا۔شیراز سے ایک ممبر پارلیمنٹ پارسائی نے تبصرہ کیا کہ ”حکومتی فیصلے کے باوجود ابھی بھی چین سے مسافر ایران آ رہے ہیں اور پوری دنیا سے ایرانی ائر لائن کمپنیاں مسافر چین پہنچا رہی ہیں۔ کیا ائر لائن کمپنیاں ریاستی قوانین کے تابع نہیں؟ کیا وہ آزاد ہیں؟“ پارسائی کے سوالات کا جواب یہ ہے کہ سادہ احکامات کو نافذ کروانے پر وزارتِ صحت کی نااہلی ایرانی حکمران طبقے میں موجود دراڑوں کو واضح کر رہی ہے جو بحران کے بوجھ سے اور زیادہ وسیع ہوتی جا رہی ہیں۔چین اور ایران کے درمیان بغیر کسی بندش کے سفر اور ریاست کی عمومی نااہلی سے ملک میں کرونا وائرس کی آمد ناگزیر تھی۔ 12 فروری کو پہلی موت کی رپورٹ آئی جب ایران اخبار نے اعلان کیا کہ ایک 63 سالہ خاتون جس میں کرونا وائرس کی علامات واضح تھیں، تہران کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گئی ہے۔ رپورٹ شائع ہونے کے دن (لاش کے طبعی معائنے سے پہلے) حکومت نے دعویٰ کیا کہ رپورٹ جھوٹی ہے اور ایسی کسی عورت کا کوئی وجود نہیں۔ کئی ہفتے حکومت ایران میں کرونا وائرس کی موجودگی سے انکار کرتی رہی۔ بالآخر 19 فروری کو پہلی مرتبہ ریاستی عہدیداران نے قُم میں وائرس کی موجودگی کا اعتراف کیا۔ اس وقت تک حقیقت کا انکار کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود حکومت ملک میں وائرس کے پھیلاؤ اور اموات پر غلط بیانی کرتی رہی۔ 23 فروری کو قُم کی میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ”وزارتِ صحت کی جانب سے واضح احکامات ہیں کہ اعدادوشمار (وائرس کے پھیلاؤ پر)کا اعلان نہ کیا جائے“۔سیاسی پردہ پوشیحکومتی پردہ پوشی مکمل طور پر سیاسی تھی۔ اگر ایران میں کرونا وائر س کی موجودگی کی خبر پھیل جاتی تو دو کلیدی تقریبات میں عوامی شمولیت شدید متاثر ہو جاتی، 11 فروری کو انقلاب کی اکتالیسویں سالگرہ اور 21 فروری کو پارلیمانی انتخابات۔ ریاست کی بھرپور کوششوں کے باوجود دونوں مواقع پر تاریخ میں کم ترین شمولیت ہوئی۔کرونا وائرس بحران سے کافی عرصہ پہلے ہی ریاست اپنی ساکھ مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ یہاں تک کہ کئی ریاستی اہلکار بھی اس حقیقت کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں۔ ایک ممبر پارلیمنٹ محمود صادقی اس صورتحال پر تبصرہ کیا کہ ”نومبر کے خوفناک واقعات پر گفتگو پر ممانعت کے بعد، ایک مسافر طیارے کو گرانے کی وجوہات پر تین دن جھوٹ بولنے کے بعد اب وہ ایک پھیلتی وباء پر بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔ کیوں تم عوامی اعتماد کو اتنی ٹھیس پہنچا رہے ہو؟“کرونا وائرس کی قُم میں موجودگی کے مجبوراً حکومتی اعلان کے بعد کئی ایرانی خوفزدہ ہو گئے کیونکہ ہزاروں زائرین ملک کے طول و عرض سے اس شہر روزانہ آتے جاتے ہیں۔ حکومت وائرس کو شہر میں قید کر سکتی تھی یا اس کے پھیلاؤ کو بہت زیادہ محدود کر سکتی تھی اگر قُم کو فوراً قرنطینہ کر دیا جاتا۔ اس کے برعکس حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک شہر کو قرنطینہ کرنا دقیانوسی اور بیکار ہے۔ اس بے عملی کی وجہ سے وائرس ملک کے ہر صوبے میں پھیل گیا۔حکومت کم شدت کے اقدامات بھی کر سکتی تھی جیسے مزار تک رسائی کو بند کر دیتی۔ یہ بارگاہ ہی زائرین کے شہر آنے جانے اور وائرس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ تھی۔ زائرین اکثر بارگاہ کو ہاتھ لگاتے اور چومتے ہیں تاکہ اس کی ”شفائی قوتوں“ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مزار کو بند کرنے کے خیال کی مذہبی دائیں بازو کے بارگاہ کے منتظمین نے شدید مخالفت کی۔بالآخر اسے 24 فروری کو بند کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چھ دنوں تک انتظامیہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وائرس قُم میں موجود ہے اور انہوں نے پورے ملک میں اس کے تیز تر پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے۔مزار کا ایک متولی علی اکبر حُسینی نژاد بھی مخالفین میں شامل تھا اور اس کا کہنا تھا کہ ”بارگاہ کو بند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ عوام کو خود محتاط ہونا چاہیے۔۔۔“ بارگاہ کے نگران محمد سعیدی کا موقف تھا کہ بارگاہ کو کھلے رہنا چاہیے کیونکہ یہ ”شفاء کا گھر ہے“ اور ”عوام کے یہاں آنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے“۔ وزیرِ صحت نمکی نے سرکاری ٹی وی پر بیان دیا کہ زائرین کو ہاتھوں کی صفائی کے لئے جراثیم کش محلول، صحت سے متعلق آگاہی اور فیس ماسک فراہم کرنے کے بعد مزار آنے کی اجازت ہو گی۔ان سب اقدامات نے ایرانیوں میں بہت زیادہ غصہ بھڑکا دیا ہے جنہیں نظر آ رہا ہے کہ یہ حکمران طبقے کا حرص اور تنگ نظر خود غرضی ہے جس کی وجہ سے آج لاکھوں افراد اس جان لیوا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔بالآخر حکومت نے عمل کا فیصلہ کر ہی لیا۔ سکول اور یونیورسٹیاں بند کر دیے گئے، بڑی ثقافتی اور کھیل کی تقریبات منسوخ اور پورے ملک میں کام کے اوقات کار میں کمی کر دی گئی۔ لیکن جب تک حکومت پھیلاؤ کی روک تھام کو روکنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے کی طرف گئی تو پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔اس دوران مسجدوں کی بندش اور لوگوں کو گھروں میں عبادت کرنے کی تلقین سے دائیں بازو کے ملا شدید مشتعل ہو گئے۔ مشہد میں سپریم لیڈر کے خوفناک رجعتی نمائندے عالم الہدیٰ کا کہنا تھا کہ ”جمعے کی عبادت کسی صورت منسوخ نہیں کی جائے گی۔“ 28 فروری کو جمعے کے اجتماعات منسوخ کرنے کے اعلان پر حکومت کی مخالفت میں ان سخت گیر ملاؤں نے عوامی اکٹھ اور اجتماعات کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔3 مارچ کو سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی منظر عام پر آ کر کرونا وائرس بحران کے حوالے سے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ تباہی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اس سے بڑی ہولناکیاں ماضی میں رونما ہوتی رہی ہیں“۔ اس نے خاص طور عوام کو ”عبادت“ کرنے کی تلقین کی تاکہ وہ وائرس کا مقابلہ کر سکیں۔ یعنی اگر امراء اور ارباب اقتدار میں وائرس کی موجودگی کا ذرا بھی شک ہو تو ان کے لیے صحت کی بہترین سہولیات موجود ہیں جبکہ محنت کش طبقہ صرف عبادت پر اکتفاء کرے۔ یہ واقعات ایرانی عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کریں گے اور ریاست اور زیادہ کمزور ہو گی۔ اسی دوران، یہ اعتراف کہ مزار کی کوئی شفایاب برکات نہیں اور حقیقی حاجت کے وقت عبادات موثر نہیں، ملا ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔صحت عامہ کے بحران کا پردہ فاشکرونا وائرس بحران نے ایران میں صحت عامہ کی بوسیدگی کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ عوام ہسپتالوں پر اعتبار نہیں کرتے اور کئی افراد جو وائرس کا ممکنہ شکار ہو سکتے ہیں تشخیص نہیں کرواتے۔ انہیں خوف ہے کہ اگر وہ ہسپتال جاتے ہیں اور انہیں بیماری نہ لگی ہو تو ہسپتال جانے سے یقیناً ہو جائے گی۔ جو ہسپتال تشخیص کے لئے پہنچتے بھی ہیں تو انہیں اسی کمرے میں رکھا جاتا ہیں جہاں درجنوں ممکنہ کرونا وائرس سے متاثر افراد موجودہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے بیمار ہونے کا موقع شدید بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہسپتالوں میں وہ طبی آلات موجود ہی نہیں جن کے ذریعے بحران سے نمٹا جا سکے۔حکومت نے کرونا وائرس بحران کے حوالے سے یکے بعد دیگرے غلطیاں کی ہیں جن کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ موجود ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ عوام کے آلام و مصائب اور اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ناگزیر طور پر عوام ریاست کو ہی قصوروار ٹھہرائے گی۔ وہ مکمل طور پر تنگ آ چکے ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب وہ معاشی بحران اور نالائق کرپٹ ریاست کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ چالیس سال کے جبر اور نالائقی کا نتیجہ ہے۔ ابھی تک حال ہی میں رونما ہونے والے دو دل سوز واقعات عوام کی رگوں میں سلگ رہے ہیں، نومبر میں ہولناک قتلِ عام جس میں ریاست نے 1500 سے زائد افراد کو شہید کر دیا اور وکرائن جہاز کو مار گرنا جس کی وجہ سے 176 افراد کی شہادت ہوئی۔عہدیداران کو اچھی طرح اس سلگتے آتش فشاں کا اندازہ ہے اور وہ کرونا وائرس کی وبا کو حمایت جیتنے کے لئے بھرپور استعمال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ جب پہلی مرتبہ کرونا وائرس کی تشخیصی کٹس ایران میں دستیاب ہوئیں تو تمام اہم اہلکاروں کے ٹیسٹ کئے گئے اور جن میں وائرس کی تشخیص ہوئی انہوں نے سرکاری طور پر اعلان بھی کئے۔لیکن ہمدردی کے بجائے وہ مزید غصے کا نشانہ بنے۔ ان ڈاکوؤں کے ٹیسٹ کیوں ہو رہے ہیں جبکہ ان میں سے اکثریت میں وائرس کی علامات موجود نہیں اور کٹس کی کمی بھی شدید ہے؟ ہمدردیاں بٹورنے کی یہ بھونڈی سازش شرمناک شکست سے دوچار ہوئی۔ یہاں تک کہ جب حکومتی عہدیداران کی کرونا وائرس سے اموات ہونی شروع ہو گئیں تو اس وقت بھی انہیں عوام کی ہمدردی نصیب نہ ہوئی۔اکثر لوگوں نے ان کی موت پر جشن منایا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ریاست کے خلاف عوامی جذبات کتنے گہرے اور شدید ہیں جن کا وجود ہی اکثریت کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔سب سے بڑھ کر، اس طرح کے افسوسناک واقعات کسی بھی آمریت کا حقیقی روپ آشکار کر دیتے ہیں۔ شاید کسی بھی اور جگہ کے برعکس ایران میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ گلی سڑی سرمایہ داری کی ناکامی واضح ہوئی ہے۔ ایرانی ریاست اس وقت تاریخی تباہ حالی اور زوال کا شکار ہے۔ اس ریاست نے آج تک موجودہ بحران جیسی کیفیت کبھی نہیں دیکھی۔ ایرانی عوام اس گلے سڑے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور کئی مرتبہ ایک بہتر دنیا کی جدوجہد میں اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ اس وقت وائرس کی وجہ سے عوام گھروں میں قید ہے لیکن غم و غصہ بے نظیر انتہاؤں پر پہنچ چکا ہے۔ جلد یا بدیر ایرانی عوام ایک مرتبہ پھر متحرک ہو گی۔ اور پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس ریاست کو اکھاڑ پھینکنے اور ایک نظام تشکیل دینے سے نہیں روک سکے گی جو انسانیت کو ایک مرتبہ پھر اپنی معراج کی طرف گامزن کر دے۔