بورژوا پارلیمانیت، طبقاتی شعور اور انقلابی لائحہ عمل Urdu Share Tweet’’اگر ہم عام سوچ اور تاریخ کا مذاق نہیں اڑا رہے تو پھر یہ واضح ہے کہ جب تک مختلف طبقے وجود رکھتے ہیں ہم خالص ’’جمہوریت‘‘ کی بات نہیں کرسکتے، سرمایہ دارانہ جبر کے تحت یہ ’’جمہوریت‘‘ محدود، اپاہج، جھوٹی اور منافقانہ رہتی ہے جو امیروں کے لئے ایک جنت اور استحصال زدہ غریبوں کے لئے ایک پھندہ، ایک لعنت، ایک دھوکہ ہوتی ہے۔ ‘‘ (ولادیمیر لینن، 10اکتوبر1918ء)ہم اس دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اس کی تمام تر غلاظت، جعلسازی اور تعفن کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ استحصال، جبر اور بربریت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک پر امن، خوشحال اور خوشگوار معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہے اور اس کے لیے ہمیں کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟ہم ایک خوبصورت اور تابناک دنیا کا تصور کر سکتے ہیں۔ با وقار اور قابلِ ستائش زندگی کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ اس خوابوں کی دنیا کے خاکے میں اپنی مرضی کے رنگ بھر سکتے ہیں۔ لیکن اس سے ہمارے ارد گرد موجود بدصورت اور حقارت آمیز دنیا تبدیل نہیں ہوجاتی بلکہ وہ مزید ناقابلِ برداشت ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک نسبتاً آسان لیکن بے سود راستہ یہ ہے کہ ہم خود سے یہ طے کر لیں کہ انسانوں کے رہنے کے لائق دنیا کو کیسا ہونا چاہیے۔ پھر اس کے خال و خد متعین کریں اور یہ امید کرنا شروع کر دیں کے ایک دن سب انسان اس پر متفق ہو کر ایسی دنیا کو تشکیل دیں گے اور ہم کامیاب و کامران ہو جائیں گے۔ دوسرا قدرے مشکل مگر کار آمد طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات اور تصورات سے ماوراارد گرد موجود حقیقی دنیا کو سمجھیں اور اس کے اسرا رو رموز کا ادراک حاصل کریں، اس کے تاریخی پسِ منظر کا جائزہ لیں اور پھر دیکھیں کہ اسے ایک بہتر دنیا میں کس طریقے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ماحول، ثقافت، اقدار، رسو م و رواج اور عمومی نفسیات کے محرکات کو جان کر ہی ہم انہیں ایک بہتر دنیا کی جدوجہد کے لیے راغب کر سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے بورژوار پارلیمانی جمہوریت، ٹریڈ یونینوں اور اس نظام کے دیگراداروں کی طرف ہمارے رویے کا فیصلہ انہی بنیادوں پر ہو سکتا ہے۔ ترقی یافتہ شعور بعض اوقات بہت ہٹ دھرم بھی ہو سکتا ہے اور سماجی تبدیلی کے عمل میں اس کے حسِ توازن کا کڑا امتحان ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔انسانی تاریخ ہر رنگ، ذائقے اور چال چلن سے آشنا ہے۔ یہ طویل دورانیوں کے ادوار اور ان کی کوکھ میں پلنے والے نئے امکانات کے مابین پیچیدہ اور باہمی کشمکش اور اس کشمکش کی مسلسل ایک دوسرے میں بدلتی ہوئی حالتوں کے امتزاج پر مبنی ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف نظام اور بسا اوقات مختلف نظاموں کے ملغوبے مختلف شکلوں میں غالب رہے ہیں۔ ساری تاریخ تضادات سے عبارت ہے۔ بظاہر انتہائی سادہ اور معمول کے حالات میں بھی زندہ قوتوں کا توازن بہت حساس ہو سکتا ہے جو ایک دم اپنے الٹ میں بدل کر ساری صورتحال کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات نہایت تیز ترین سماجی حرکت میں بھی حقیقی بنیادی تبدیلی کے امکانات مخدوش ہوتے ہیں۔ انسانی شعور کی ہمیشہ یہ کاوش رہی ہے کہ وہ ان تضادات کو کسی سادہ ترین فارمولے کے تابع کر لے اور سب کچھ بآسانی منظم اور مربوط کیا جا سکے، لیکن تضادات ہیں کہ مسلسل فروغ پاتے اور نئی نئی شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انسانی کاوشیں عام طور پر بہت بنیادی اور اہمیت کے حامل مراحل میں معاملہ فہمی کے حوالے سے سنگین غلطیوں کے ارتکاب کا باعث بن جاتی ہیں۔ ان غلطیوں سے اجتناب کا واحد قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ تضادات سے مفر حاصل کرنے کی بجائے تضادات کو حقیقی اور لازمی امر مان کر ان کے پسِ پردہ عوامل اور محرکات کو تلاش کرنے کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کی جائے۔کسی بھی عہد میں معاشی اور سیاسی نظاموں کے خال و خد کا تعین پیداواری قوتوں اور سماجی رشتوں کے تال میل سے ہوتا ہے۔ تاریخ میں قدیم اشتراکیت کے بعد طبقاتی نظام نے غلام داری سے سرمایہ داری کے حالیہ مرحلے تک مختلف مراحل طے کیے لیکن ہر نظام تاریخ کے ایک ہی مرحلے میں مختلف خطوں اور ممالک میں مختلف شکلوں میں موجود رہا ہے۔ اس لیے اس ناہموار اور مشترکہ کردار کی حامل تاریخی ترقی کو کسی مشینی طرزِ فکر کے ذریعے پرکھا اور سمجھا نہیں جا سکتا۔ کوئی بھی نظام اور اس کی سیاست متروک ہو جانے کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک سماج پر حاوی اور اقتدار پر براجمان رہ سکتی ہے۔ مخصوص معروضی اور موضوعی عوامل کی غیر موجود گی میں ایک نظام سے دوسرے کی طرف تبدیلی کے عبوری دور غیر اعلانیہ طور پراور نا قابلِ یقین حد تک طوالت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس عبوری دور میں ماضی اور مستقبل زمانہ ءِ حال کے میدانِ کار زار میں برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ ایسے میں اس متروک نظام کی اخلاقیات، رسوم و رواج، اقدار اور سماجی نفسیات کی نئے اور ممکنہ طور پر آئندہ کے حکمران نظام کے طرزِ فکر اور مادی بنیادوں کے ساتھ معرکہ آرائی ہوتی رہتی ہے جس میں توازن مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ اس بدلتے ہوئے توازن کے ساتھ سماجی شعور بھی ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔ مستقبل کی نمائندہ قوتوں کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ سماجی شعور کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح نتھی کر لیں کہ اس کی اطاعت کر نے کی بجائے اس کی رہنمائی کرنے کا شرف حاصل کر سکیں۔کامریڈ لینن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’سیاست مجتمع شدہ معیشت ہی ہوتی ہے ‘۔ جمہوریت سیاسی تاریخ کے لیے کوئی جدید لفظ نہیں ہے بلکہ یہ خود سرمایہ دارانہ نظام سے ہزاروں سال پرانا ہے۔ ہر معاشی نظام نے اپنے لیے ایسا موافق سیاسی نظام رائج کیا جس کے ذریعے وہ اپنی عملداری میں سیر حاصل اضافہ کر سکے۔ جوں جوں زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل انسانوں کے تصرف میں آتے چلے گئے، نظام اتنے ہی پیچیدہ ہوتے رہے اورسیاسی عمل میں چھوٹی سی اقلیت کی نسبت زیادہ لوگوں کی شمولیت کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ مسلسل جدوجہد کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگ سیاسی عمل کا حصہ بنتے رہے اور جمہوریت کو نئے مفہوم اور شکلیں عطا کرتے رہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد پیداواری قوتوں کو ملنے والی مہمیز نے سرمایہ دارانہ نظام اور بورژوا جمہوریت کے تصور کو جنم دیا۔ یہ قرونِ وسطیٰ کی جمہوریت کی نسبت بہت ترقی یافتہ قدم تھا، اسی لیے اس تصور کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ اس سے قبل کی انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب تھالیکن اپنی معاشی محدودیت کی وجہ سے یہ جمہوریت بھی آخری تجزیے میں مٹھی بھر سرمایہ داروں اور اجارہ داریوں کی نمائندہ بن کر رہ گئی۔ اس جمہوریت کو حقیقی مفہوم عطا کرنے کے لیے عوامی اور اشتراکی جمہوریت کے تصور نے فروغ پانا شروع کیا۔کارل مارکس نے اسے اس کی معاشی شکل و صورت کے ساتھ سائنسی بنیادیں عطا کیں اور یہ کمیونسٹ نظریے کی شکل میں بورژوا جمہوریت کے سیاسی نظام پر ایک عفریت کی شکل میں غالب آنا شروع ہوئی۔ سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے اور مسلسل بے قابو ہوتے ہوئے تضادات کی وجہ سے محنت کش عوام کی تحریکیں اور انقلابات معمول بننا شروع ہو گئے۔ پیرس کمیون کی ناکامی کے بعد روس کے کامیاب تجربے نے کمیونسٹ نظریات کو ایک وبا کی شکل میں سارے براعظموں میں پھیلا دیا۔ آبادی کی اکثریت سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و ستم کا شکار ضرور تھی مگر نئے سیاسی نظام اور تصورات کو ان کے شعور کا حصہ بننے کے لیے مختلف واقعات کی میزان پر تلنا بہت ضروری تھا۔ ایسے میں لوگ بورژوا جمہوریت کے ساتھ چمٹے رہ کر اشتراکی جمہوریت کے تصور کو سمجھنا اور اپنانا چاہتے تھے کیونکہ یہ ان کے لیے قدرے آسان راستہ تھا۔ ان کے آبا ء و اجداد کی ہزاروں سالہ تاریخ کا یہ آزمودہ اور سود مند فارمولہ بھی تھا۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ بورژوا جمہوریت سے منسلک رہتے ہوئے اس سے زیادہ سے زیادہ اصلاحات اور عوامی فلاح و بہبود کے مطالبات کیے جائیں اور اس کی تاریخی نا اہلی کو عوامی شعور سے روشناس کراتے ہوئے ایک سوشلسٹ متبادل پیش کیا جائے اور محنت کشوں کی اکثریت کو جیتا جا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ لینن اور ٹراٹسکی نے بورژوا جمہوریت کو کالعدم قرار نہ دیا بلکہ بورژوا پارلیمان اور دستور ساز اسمبلی میں بھی مداخلت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن سوویت ریاست کی سٹالنائزیشن اور مطلق العنانی شکل اختیار کر جانے اور پھر منہدم ہو جانے کی وجہ سے پھر سرمایہ دارانہ جمہوریت کی طرف آبادی کی اکثریت کا متوجہ ہونا اور محنت کشوں کی قیادت کا بھی تذبذب کا شکار ہو جانا ناگزیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سو ویت یونین کے انہدام کے دو عشرے گزر جانے کے بعد بورژوا پارلیمانیت کا کردار اور اس میں مداخلت کا سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔سرمایہ داری نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود نہ صرف مسلط ہے بلکہ اس کی وحشت اور درندگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صحیح معنوں میں ایک زندہ سماج پر مردہ نظام کی حکمرانی ہے۔ اس مردار نظام کی معیشت اپنی تاریخ کے شدید ترین بحران میں پھنس چکی ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں اس نظام کے خلاف تحریکوں میں شدت آتی چلی جا رہی ہے۔ لاطینی امریکہ اور عرب کے بعد اب یورپ بھی تحریکوں اور انقلابات کا مرکز بنتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن شومی قسمت کہ کسی بھی جگہ عوام کی رہنمائی کرنے کے لیے کوئی انقلابی قیادت موجود نہیں تھی جو سائنسی نظریات سے مسلح ہو۔ محنت کشوں کی روایتی قیادتیں بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت اور پارلیمانیت کو آگے بڑھنے کا آخری راستہ تصور کر چکی ہیں۔ وہ تاریخ کے خاتمے کے رجعتی نظریے پر شعوری یا لاشعوری طور پر ایمان لا چکی ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا یہ خیال ہے کہ بورژوا پارلیمان کے ذریعے اقتدار میں آ کر سرمایہ داری نظام میں محنت کش طبقے کے حق میں اصلاحات کی جا سکتی ہیں۔ چند ایک ممالک میں اقتدار نام نہاد سوشلسٹوں کو مل بھی چکا ہے جن میں فرانس سرِ فہرست ہے اور باقی یورپی ممالک میں بھی بایاں پلڑا زیادہ بھاری ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں جہاں بھی الیکشن ہوں گے وہاں پہلے کی نسبت بڑی تعداد میں لوگ سوشلسٹوں یا کمیونسٹوں کو ووٹ دے کر کوشش کریں گے کہ سوشلسٹ قیادتیں سرمایہ داری کے اژدہے کا لقمہ بننے سے ان کو بچائیں۔ لیکن قیادتیں سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو ہی نسخہ کیمیا بنا کر پیش کریں گی۔ اس سے پھر دائیں بازو کی رجعت حاوی آ ئے گی اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس کیفیت میں یورپ کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کوئی حقیقی مارکسی، لیننی پارٹی موجود ہوتی تو اس کا کیا لائحہ عمل ہوتا؟ اگر یونان اور فرانس (وہ تمام ممالک جہاں سرمایہ دارانہ انقلابات ہوئے) میں بالشویک قیادت اور مارکسی کیڈرز پر مشتمل پارٹی ہوتی تو وہ ضرور انتخابات میں حصہ لیتی لیکن ایک بالکل مختلف مطمعِ نظر کے ساتھ۔ اس لیے نہیں کہ اقتدار میں آ کر IMF، ورلڈ بینک یا دیگر سامراجی اداروں کے معاشی نسخوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے محنت کشوں کے لیے یا مزدور اشرافیہ کے لیے مراعات کی بھیک مانگی جائے بلکہ سیاسی طاقت حاصل کرتے ہوئے سامراجی اثاثوں اور قرضوں کو ضبط کیا جائے، بینکوں اور مالیاتی سرمائے سمیت تمام بڑے صنعتی مراکز اور پیداواری معیشت کو قومی تحویل میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جا سکے۔ ان نعروں اور پروگرام کے ساتھ انقلابی کیفیت میں بڑی حمایت جیتی جا سکتی ہے۔ یوں سوشلسٹوں کی اکثریت کی حامل بورژوا پارلیمان خود اپنے ہی خاتمے کے اقدامات کرتے ہوئے اپنے آپ کو سوشلسٹ جمہوریہ کی نمائندہ کانگریس میں تبدیل کر دیتی۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ایک موضوعی عنصر کی تاریخی میدان سے طویل غیر حاضری مختلف نئے سیاسی تجربات کے وقوع پذیر ہونے کا باعث بن سکتی ہے جن کا تعین واقعات، واقعات اور صرف واقعات ہی کر سکیں گے۔آئیں اب اس سوال کو پاکستان اور دیگر پسماندہ ممالک کے موجودہ معاشی اور سیاسی حالات کے پسِ منظر میں زیرِ بحث لائیں۔ 2011 ء میں برپا ہونے والا عرب انقلاب انقلابیوں کے لیے بہت توجہ کا مستحق تھا۔ بدقسمتی سے عرب کے کسی بھی ملک میں کوئی سوشلسٹ پارٹی موجود نہیں تھی۔ ان ممالک میں سے زیادہ تر میں صنعتی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت سے ممالک میں مطلق العنان بادشاہتیں کئی عشروں سے مسلط تھیں جن میں سے چند ایک کو انقلاب نے اکھاڑ پھینکا اور بعض ممالک میں یہ کشمکش انتہائی خونی کھلواڑ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایسے میں ان آمریتوں کا اکھاڑا جانا انقلاب کی عظیم کامیابی ہے لیکن تاریخ کے اس مرحلے میں یہ سمجھنا کہ وہاں بورژوا پارلیمانیت کے ذریعے کوئی بھی ایک بنیادی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ عرب حکمران طبقہ سامراج کا سب سے گماشتہ حکمران طبقہ ہے جس نے اپنی غلیظ اور مکروہ مراعات کے تحفظ کے بدلے میں عرب کے بیش بہا قدرتی وسائل کو سامراجی بھیڑیوں کے ہاتھوں نیلام کر دیا ہے اور وہ سامراجی بھیڑیے اپنے نظام کے تاریخی بحران کے دنوں میں ان وسائل کی لوٹ مار میں آئے روز شدت لانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مصر اور تیونس میں سامراجی بنیاد پرستوں اور فوج کے گٹھ جوڑ سے اپنی لوٹ مار کے تحفظ کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن کسی قسم کا استحکام نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں یہ سوچنا بھی جرم ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کوئی استحکام لمبے عرصے تک چلے گا اور اس استحکام کے دور میں ایک انقلابی پارٹی عرب کے کسی بھی ملک میں تعمیر ہو کر بالآ خر بورژوا پارلیمان کے ذریعے سوشلسٹ اصلاحات کرتے ہوئے سرمایہ داری کا خاتمہ کرے گی۔ پارلیمان کے انتخابات آئندہ عشرے میں بہت سے عرب ممالک میں بار بار ہوں گے اور ان انتخابات میں متبادل انقلابی اور سوشلسٹ پروگرام پیش کرتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے لیکن پارلیمان کے ذریعے انقلاب کو حتمی فتح کی منزل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ مصر اور اسرائیل کا پرولتاریہ خاص طور پر عرب کے انقلاب کا ہراول ہے۔ وہ ایک مارکسی قیادت کی رہنمائی میں پے درپے عام ہڑتالوں کے ذریعے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے ایک اوزار کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ استحکام کے یوٹوپیا میں نہیں بلکہ انہی دشوار گزار حالات کے پر زور تھپیڑوں میں ہی حقیقی انقلابی قوت تیار ہوگی جو بالآخر سرمایہ دارانہ غلاظت کا خاتمہ کرے گی۔لاطینی امریکہ میں وینزویلا کا گزشتہ 15 سال سے جاری رہنے والا انقلاب ایک تاریخی استثنیٰ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جہاں بورژوا ریاست اور اداروں کے ہوتے ہوئے خاطر خواہ سوشلسٹ اصلاحات کی گئیں۔ انقلاب کی سست روی نے بالآخر ان تمام اصلاحات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ شاویز کی وفات کے بعد ردِ انقلابی قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جس سے خانہ جنگی کے خطرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ عوام کی غیر معمولی سیاسی شرکت کے باوجود انقلاب کی تکمیل کیوں نہیں کی جا سکی ؟زیادہ تر لوگ اسے محض شاویز کی شخصیت اور اس کے کردار کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ شاویز ایک حادثاتی قیادت کی شکل میں نمودار ہوا تھا اور اس کی کوئی بھی فیصلہ کر سکنے کی صلاحیت کا دارومدار محض عوام کی خواہشات پر نہیں تھا بلکہ مادی قوتوں کی ترقی، سماجی تبدیلی کے اوزار کی موجودگی اور بین الاقوامی طور پر طاقتوں کے توازن پر تھا۔ اگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کے مخصوص سیاسی ماحول کے برعکس عالمی تحریکوں اور سوشلسٹوں کی فتح کا عہد ہوتا تو صورتحال بالکل مختلف ہو سکتی تھی۔ اگر شاویز پارلیمانی قراردادوں کے ذریعے سرمایہ داری کے حتمی خاتمے کا اعلان کر بھی دیتا تو تب بھی اس انقلاب کا حتمی فیصلہ سوویتوں اور محنت کشوں کے اداروں میں زندہ طاقتوں کے توازن پر ہی ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک طرف مارکسسٹ تمام انتخابات میں شاویز کی تنقیدی حمایت کرتے ہوئے اس سے زیادہ سے زیادہ سوشلسٹ اصلاحات اور سرمائے، بینکوں، میڈیا اور سامراجی اثاثوں کی مکمل ضبطگی کا مطالبہ کرتے رہے اور ساتھ ساتھ وہ انقلابی اوزار بھی تیار کرنے کی کوشش کرتے رہے جوایک سوشلسٹ ریاست کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا۔پاکستان میں بھی آ ج کل انتخابات کا بہت شور ہے۔ ان انتخابات کو میڈیا کے ذریعے تبدیلی کی نوید بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کتنا بڑا مضحکہ ہے کہ تمام امیدواروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور کسی کو بھی سو فیصد یقین نہیں کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں لیکن سماعتوں میں زہر گھولنے والا ایک بیہودہ شور ہے کہ ’تبدیلی آ رہی ہے، تبدیلی آ رہی ہے‘۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت ان انتخابات سے بالکل لاتعلق ہے اور سیاسی بے حسی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے بعد محنت کشوں کی روایتی پارٹی کا پہلا اتنا طویل سیاسی ایکسپوژر ہوا ہے۔ لوگ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے مایوس ہو کر سیاسی طور پر گوشہ نشین ہو چکے ہیں۔ لیکن اسی مایوسی میں بغاوت کے آثار بھی وقتاً فوقتاً اپنی جھلک دکھاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران بھی اس سیاسی بیگانگی سے خوفزدہ ہیں۔ ریاست کے اداروں اور اس نظام سے بد اعتمادی خود حکمران طبقے، ریاستی اداروں اور ان کے سامراجی آقاؤں کی نیندیں اڑا رہی ہے۔ وہ خود یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نظام ناکام نہیں ہوا ہے۔ حکمران طبقے سے غلطیاں ضرور ہوئی ہیں مگر اب ان غلطیوں کی تلافی کا وقت آ رہا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف شور وغل کیا جا رہا ہے جیسے اب سب توبہ تائب ہو جائیں گے۔ انتخابی اصلاحات کے ناٹک رچائے جا رہے ہیں کہ جیسے بہت شفاف انتخابات ہونے والے ہیں تاکہ لوگ آئیں اور انتخابی عمل میں اپنے غم و غصے کو زائل کر دیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے فروعی اور غیر ضروری انتخابات میں انقلابی قوتوں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں یہاں صرف ایک بار ایسے انتخابات ہوئے تھے جن کو نسبتاً شفاف قرار دیا جا سکتا تھا۔ اور اس میں پیپلز پارٹی نے ایک انقلابی سوشلسٹ پروگرام پیش کر کے ایک بھاری مینڈیٹ حاصل کیا تھا۔ لیکن اس شفافیت کی وجہ کوئی بورژوا اصلاحات نہیں تھیں بلکہ 68-69 ء کا عظیم انقلاب تھا۔ اگر پیپلز پارٹی ایک حقیقی سوشلسٹ پارٹی ہوتی تو اس منشور پر عمل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ایک بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ایک حقیقی بالشویک پارٹی ہوتی (جو وہ نہ کبھی تھی، نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے) تو 70 ء کے انتخابات سے پہلے ہی سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا اور بورژوا پارلیمانیت کے ذریعے نہیں بلکہ براہِ راست اقتدار پر قبضہ کر کے سوشلسٹ جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا جاسکتا تھا۔ پارلیمنٹ بذاتِ خود پورا نظام یا ریاست نہیں ہوتی بلکہ ریاست اور نظام کا ایک ادارہ ہوتی ہے۔ اگر باقی تمام ادارے بورژوا ہوں تو پارلیمان کو کیسے سوشلسٹ بنایا یا کیا جا سکتا ہے۔ 70ء کے انتخابات کے بعد بننے والی پارلیمان ایک بورژوا ریاست کی بورژوا پارلیمان تھی اور اس وقت محنت کشوں کے خوف سے حکمران طبقے کو اپنی کچھ مراعات سے دستبردار ہونا پڑا تھا لیکن جونہی محنت کش طبقہ پسپا ہوا تو بورژوازی نے دوبارہ اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ لیکن اس وقت بھی وہ پارلیمان ایک مصنوعی کردار کی حامل تھی اور بورژوازی میں اتنی معاشی اور سیاسی گنجائش نہیں تھی کہ وہ اس پارلیمان کو خود سرمایہ دارانہ فرائض کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکے اور آج بھی بورژوا پارلیمانیت اور جمہوریت ایک دھوکہ اور ایک فریب ہے اور آج پہلے سے کہیں زیادہ عالمی مالیاتی سرمائے کی آمریت مسلط ہے اور بورژوازی پہلے سے زیادہ سامراجی اداروں کی غلامی کرنے پر مجبور ہے۔ آج بورژوا انقلاب کے تمام تر فریضوں کا ادھورا پن رِستا ہوا ناسور بن چکا ہے۔ ریاست کا اپنا وجود منتشر ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ریاست کی رِٹ بلوچستان، پشتونخواہ اور حتیٰ کہ کراچی میں بھی ڈانواڈول ہے۔ حکمران طبقے کو خود اپنی حکمرانی کے تسلط کو قائم کرنے کے لیے نام نہاد جمہوریت سے کہیں زیادہ براہِ راست قومی اور طبقاتی جبر کی ضرورت ہے۔ جس پارلیمان کو خود بورژواانقلاب کے فرائض کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اس کے ذریعے سوشلسٹ انقلاب کو کیسے پایہِ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ انقلابیوں کو ایسی پارلیمنٹ میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ انقلابی خود آزادانہ طور پر انقلاب نہیں کر سکتے۔ اس قسم کے جتنے بھی تجربے ماضی میں ہوئے وہ بالآخر زوال پذیر ہو گئے۔ انقلاب محنت کش طبقے کی سیاسی میدان میں فیصلہ کن شرکت کا نام ہوتا ہے، انقلابی ان تاریخی لمحات میں محنت کشوں کی رہنمائی کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن رہنمائی کرنے کے لیے ضروری یہ ہوتا ہے کہ وہ محنت کش آپ کو پہچانتے ہوں، نہ صرف یہ کہ پہچانتے ہوں بلکہ آپ پر آہستہ آہستہ اعتماد بھی کرنے لگے ہوں۔ اس لیے انقلابیوں کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر مشکل گھڑی میں، چھوٹی چھوٹی ہڑتالوں سے لے کربڑی بڑی بغاوتوں تک، روزمرہ کے مسائل سے لے کر جیلوں تک اور انتخابات اور انقلابات سمیت تمام سیاسی تجربات میں محنت کشوں کے شانہ بشانہ رہیں۔ انقلاب اگر محنت کش طبقے نے کرنا ہے تو یہ سمجھنا فیصلہ کن ہوتا ہے کہ محنت کش کیا سوچ، سمجھ اور سیکھ رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کا شعور واقعات کے مرہونِ منت ہوتا ہے۔ مختلف چھوٹے، بڑے، انقلابی اور ردِ انقلابی واقعات کا ایک تسلسل ہی کسی بڑے انقلابی واقعے پرمنتج ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان تمام واقعات میں محنت کشوں کے ساتھ کھڑے رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے اداروں سے محنت کشوں کا اعتماد بہت متزلزل ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی سنجیدہ متبادل پروگرام اور لائحہ عمل ان تک پہنچ نہیں پایا۔ 2007ء کے بعد کسی بڑی سیاسی تحریک کی عدم موجود گی میں عوامی شعور میں وہ شکتی، توانائی اور تروتازگی نہیں ہے کہ وہ فوری طور پر کسی بڑی انقلابی تحریک کے متحمل ہو سکیں۔ وہ حکمران طبقے اور مڈل کلاس کا سیاسی ناٹک بہت باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ یقیناً بڑی تعداد میں ووٹ دینے نہیں جائیں گے لیکن وہ ان انتخابات کے ناٹک میں تمام سیاسی قوتوں اور خاص طور پر اپنی سیاسی روایت کا انتہائی تنقیدی جائزہ ضرور لیں گے اور انہیں اس اذیتناک نتیجے پر پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا کہ یہ روایت حتمی طور پر اب ان کے لیے لڑائی کے ایک پلیٹ فارم سے ان کے خلاف حکمران طبقے کے ایک ہتھیار میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہم انتخابی مہم میں اپنے پمفلٹس، ہینڈ بلز، تقاریر اور سٹالز کے ذریعے جہاں ایک طرف دائیں بازو کے تاریخی کردار کو ننگا کریں گے وہیں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے سوشلسٹ متبادل متعارف کروانے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے نعرے باقی ساری پارٹیوں اور ان کی قیادت سے یکسر مختلف ہوں گے۔ لوگ جمہوریت جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹیں گے اور ہمارے نعرے دوٹوک اور واشگاف ہوں گے کہ سرمایہ داروں کی نہیں عوامی جمہوریت، سامراجی آقا نہیں طاقت کا سرچشمہ عوام، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور ری سٹرکچرنگ نہیں نیشنلائزیشن اور محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول، سرمایہ داری نہیں سوشلزم ہماری معیشت۔ اگر ہمارے کسی کامریڈ کو پیپلز پارٹی کا انتخابی ٹکٹ مل جاتا تو ہم یقیناً اس انتخابی کیمپئین کو ایک انقلابی معرکے میں تبدیل کر سکتے تھے اور ہماری کیمپئین سے سیاسی بیگانگی کے اس ماحول میں ایک ہلچل کا سماں پیدا ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ٹکٹ نہیں دیئے گئے اور ہمیں انتخابی مہم کے عمل میں جانے سے ہی باز رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن ہم پھر بھی ملک بھر میں انتخابی کیمپئین میں اپنی واضح شناخت کے ساتھ موجود ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی پارٹی کے پاس کوئی ایسا پروگرام ہے ہی نہیں جس کے اوپر کوئی سنجیدہ کمپئین چلائی جا سکے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی بہت بڑی سیاسی ہلچل نظر ہی نہیں آ رہی لیکن جتنا بھی ممکن ہو سکا انقلابیوں کو اس سیاسی عمل سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔2008ء کی طرح کامریڈ علی وزیر جنوبی وزیرستان میں جاری آگ اور خون کے کھیل میں قدیم ترین طرزِ معاش اور رہن سہن میں تاریخ کے جدید ترین نظریات کا پرچار کرنے کے لیے ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگر ہمارے کسی بھی کامریڈ کو اس بورژوا پارلیمان میں جانے کا موقع مل بھی جاتا ہے تو ہم وہاں سے اس بورژوا پارلیمان کے حقیقی کردار کو ایکسپوز کرتے ہوئے سوشلسٹ نظریات کے فروغ کے عمل کو تقویت دیں گے۔ لیکن اگر ہم کامیاب نہیں بھی ہوتے تو تب بھی کیمپئین کے ذیعے ہم ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں تک اپنی کمیونسٹ شناخت اور پروگرام کے ساتھ پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ بورژوا ریاست اور اس کے تمام ادارے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ ان کی کوکھ سے ہی ایک نیا سماج جنم لے گا اور ان میں سے جو جو کچھ اور جتنا جتنا بھی انقلابی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اسے کرنا چاہیے لیکن کمیونسٹ مستقبل پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ۔ یہ ریاست اور نظام ماضی کاملبہ ہے اور اس ملبے کو صاف کر کے ہم اس کی جگہ ایک نئی سوشلسٹ عمارت کی تعمیر کا آغاز کریں گے۔Source: بورژوا پارلیمانیت، طبقاتی شعور اور انقلابی لائحہ عمل