پاکستان ۔ ایک ناقدانہ جائزہ Urdu Share TweetUrdu translation of Pakistan - a critique (22 September 2011)اس سال پھرسندھ سیلابوں سے برباد ہے۔ قتل و غارت کے سلسلے بعد کراچی تباہ کن بارشوں کی زد میں ہے۔ لاہور میں ایک خاص قسم کے مچھر نے کہرام مچا رکھا ہے۔ سارا پنجاب ذہنی صدمے سے دوچار ہے، خاص طور پر اس کا دارالحکومت۔ بلوچستان کا لہو بہتا چلا جا رہا ہے اور ریاستی جبرکا کوئی انت نہیں۔پشتونخواہ کو سامراجی یلغار اور بنیاد پرست دہشت سے فرار حاصل نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر کی اذیت بد تر اور آزادی کا خواب دھندلا تا جا رہا ہے۔پاکستان کسی جہنم سے کم نہیں۔معیشت ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔ سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ انسانی رشتے تلخ اور بوجھ بن گئے ہیں۔ دیوانگی کی حد تک پیسے کی ہوس اور حاسدانہ ملکیتی رشتے خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ سامراجی لوٹ مار اور اشرافیہ کے استحصال سے عوام کی بڑی اکثریت غربت، بے روزگاری، افراط زر، ناخواندگی، اذیت اور بیماری کی گہری کھائی میں گر چکی ہے۔مادی اور سماجی ڈھانچہ مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ریلوے، صحت، تعلیم، صفائی، پانی، بجلی اور رہائش زبوں حال اور عام عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ ارد گرد نظر دوڑائیں تو مسلسل گلتا سڑتا اور برباد ہوتا سماج دکھائی دیتا ہے۔ سیلابوں نے ایک مرتبہ پھر سے نہری نظام کی کمزوری کو عیاں کر ڈالا ہے۔ایسی قدرتی آفات جن سے بچا جا سکتا ہے کروڑوں افراد کو برباد کر رہی ہیں کیونکہ لالچ اور قلت بر مبنی اس نظام میں ان سے بچاؤ کے لیے پیسہ خرچ نہیں کیا جاتا۔عدلیہ سے لے کر انتظامیہ اور فوج سے لے کر مقننہ تک سب ریاستی ادارے اندرونی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ریاستی مشینری کرپشن اور کالے دھن کی معیشت میں ڈوب کرگل سڑ رہی ہے۔’آزاد ‘ عدلیہ تک رسائی بے پناہ مہنگی اور عام لوگوں کی دسترس سے با ہر ہے۔مسلح افواج کے آسمان کو چھوتے خرچوں کے اضافے میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ پارلیمینٹ اور سارا سیاسی نظام جرائم، لوٹ اور بھتہ خوری سے لتھڑا ہوا ہے۔ ’آزاد‘ میڈیا کھے عام مایوسی پھیلا رہا ہے، او ر عوام کو اس استحصالی نظام کا غلام بنانے کے لیے ان کے شعورکو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں ہے۔ بدلے میں میڈیا مالکان اور ان کے طبقے کو دولت، منافعوں، مراعات ، عیاشیوں اور اعلیٰ سماجی رتبے سے نوازا جاتا ہے۔ ایک طرف امرا اور دولت مندوں، بلند اور طاقتورں، نودولتیوں اور سدھائے ہوئے وحشیوں، جرائم کے بادشاہوں اور گِدھوں کا یہ لوٹ ماراور نمائش کا بیہودہ جشن ہے، تو دوسری جانب ذلت آمیز زندگی اور غربت سہتے ہوئے محکوم طبقات کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت اور غصے کی سلگتی ہوئی آگ ہے۔لیکن پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ اس نظام کو چلانے والوں کو کچھ پرواہ ہی نہیں۔ بالا دست سیاستدان، دانشور، جرنیل، جج، بیوروکریٹ، ملا، نظریہ دان اور پرہیزگار ماہرین مسلسل ان موضوعات پر بحث کیے جا رہے ہیں جن کا عوام کے حقیقی مسائل اور اس بد بخت سماج کو درپیش مستقبل کی ناگزیر بربادی سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے بنیادی تضادات جعلی ہیں۔ سیکولر ازم اور مذہب، لبرل ازم اور قدامت پرستی، جمہوریت اور آمریت، علیحدگی پسندی اور حب الوطنی، سامراج اور مذہبی بنیاد پرستی، گڈ گوورننس اور کرپشن کے درمیان تنازعات اس نظام کی پیداوار ہیں اور یہ بحثیں سرمایہ داری کی حدود کے اندر ہی مقید رہتی ہیں۔در حقیقت یہ اس طبقاتی حکمرانی کے مختلف خیالات، نظریات اور طریقہ کار ہیں ، جو اپنی بنیاد کے نظام کی متروکیت کی وجہ سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے بحران کا شکار ہے۔ عوام اشرافیہ اور ’سول سوسائٹی‘ کے ان مسائل سے بے خبر اور بے پرواہ ہیں۔ آبادی کی وسیع اکثریت کا سلگتا ہوا حقیقی مسلہ یہ ہے کہ محض زندہ رہنا ایک خوفناک کام بن چکا ہے۔ حکمران طبقے اور اس کے ظالمانہ نظام نے عوام کو جن اذیت ناک حالات میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے، وہ تیزی سے ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔اور اشرافیہ کے دانشور اس سب سے انجان نظر آتے ہیں۔ وہ سفاکی اور کسی پاداش کے خوف کے بغیر حملہ کرتے ہیں، آج خوفناک کٹوتیوں کی شکل میں تو کل تکلیف دہ مہنگائی کی صورت میں۔پاکستان کے محنت کش طبقات نے بارہا حکمران طبقے کی ثقافت، اخلاقیات، خطبات اور ریاستی جبر کی رکاوٹوں کو پاش پاش کرتے ہوئے ریاست کی تمام فریب کاری اور ہتھکنڈوں کوللکارا ہے۔ وہ اشرافیہ او ر ان کی ریاستی قوتوں کو دیوار سے لگاتے رہے ہیں لیکن اپنی ہی قیادت کی غداریوں کی وجہ سے وہ اس برباد نظام کا تختہ الٹنے کی حد تک نہیں جا سکے۔تازہ ترین عوامی بغاوت 2007ء کے خزاں میں ہوئی۔حکمران طبقات اور سامراج نے اس کا جواب نے نظیر بھٹو کے المناک قتل کی شکل میں دیا۔وہ جسے تحریک کا محور سمجھتے تھے اسے ختم کر ڈالا۔ ایک مرتبہ پھر اجتماعی قیادت اور انقلابی پارٹی کی کمی کا تکلیف دہ احساس ہوا۔ اس شدید دھچکے اور اس کے بعد پی پی پی کے دائیں بازو کے لیڈروں کی زیر قیادت مخلوط حکومت کی جانب سے معاشی حملوں کے ریلے نے سماج میں مایوسی اور بے حسی کو جنم دیا۔ اس کے نتیجے میں عوام کا سیاسی شعور پیچھے گیا ہے۔ چناچہ حکمران طبقے کی رجعتی اخلاقیات اور اقدار غالب رہیں۔ فریب، منافقت، لوٹ، فحاشی، عقل دشمنی اور اس نظام کی دیگر برائیاں عام رہیں۔ فن، ادب، سینما، سماجی تعلقات زوال پذیر رہے۔ تاہم اب، اس ہلکی رجعت کے عہد کی انتہا ہو چکی ہے۔1909ء میں ٹراٹسکی نے لکھا تھا ’’جب تاریخی ترقی کا سفر آگے بڑہتا ہے تو عوامی سوچ میں زیادہ گہرائی، دلیری اور تخلیق آجاتی ہے۔ سیاسی زوال کے عہد میں عوامی سوچ پر حماقت غالب ہوتی ہے۔ سیاست کو عمومی انداز میں پرکھنے کی شاندار صلاحییت کا نام و نشان تک نہیں رہتا۔ حماقت کی بے باکی بڑھتی جاتی ہے اور وہ دانت نکالتے ہوئے ہر سنجیدہ بات کی بے عزتی اور مذاق اڑاتی ہے۔ خود کو طاقتور محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیتی ہے‘‘۔ آج کے دور کے مایوسی اور بدگمانی پھیلانے والے دانشور عوام پر بزدلی اور بے عملی کا الزام لگاتے ہیں۔ لیکن د ر حقیقت یہ نام نہاد دانشور تاریخ کے تناظر میں حالات اور تحریکوں کا تجزیہ کرنے کی جدلیاتی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔اس جبر اور فریب کا شکار تو محنت کش بنتے رہے ہیں۔ ’’آزادی‘‘ سے اب تک سامراجی کی غلامی اور بے رحم بیگار پاکستانی حکمران طبقے کا خاصا رہا ہے۔7ستمبر1947ء کو جناح نے کابینہ کے اجلاس میں کہا تھا ’’اسلام کی مٹی میں کمیونزم نہیں پنپ سکتا۔ پاکستان کا بہترین مفاد دو عظیم جمہوری ممالک کی دوستی میں ہے جو امریکہ اور برطانیہ ہیں‘‘۔ لیکن 1968-69ء کی محنت کشوں، نو جوانوں اور کسانوں کی تحریک نے اس رائے کو مسترد کر دیا۔ سامراجی غلبے نے معیشت کی لوٹ مار کی ہے اور جنگیں ، تباہی اور بربادی دی ہے۔ مقامی اشرافیہ ان کے تابعدار دم چھلے بنے رہے ہیں۔ایک اور 1968-69ء ناگزیر طور پر ایک بلند معیار پر رونما ہو گا۔اس کی سوشلسٹ فتح ہمیشہ کے لیے اس نظام کی زنجیروں کو توڑ ڈالے گی جس نے محکوم طبقات کو نسل در نسل غلام بنائے رکھا ہے۔Source: Chingaree.com (Pakistan)