Urdu

”ان ڈیفنس آف مارکسزم“ کا نیا سہ ماہی جریدہ آ چکا ہے۔ جس میں ایلن ووڈز کا مندرجہ ذیل اداریہ اس بنیادی سوال پر بحث کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو ٹھیک سے جان اور سمجھ سکتے ہیں، اور یہی اس شمارے کا شروع سے آخر تک موضوعِ بحث بھی ہے۔ اس شمارے کے چار مضامین اس موضوع کے متعلق وسیع پیمانے پر سوالات اٹھاتے ہیں: ہم عصر سائنس کا بحران اور جمود، تصوف، کوانٹم فزکس کی تشریح میں، گوئٹے کے فاؤسٹ کی فلسفیانہ بصیرت، اور ماؤ کی فلسفیانہ تحاریر پر تنقید۔

اس وقت یورپی معیشت پچھلی ایک دہائی میں سب سے زیادہ گہرے بحران کا شکار ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے فرانس اور جرمنی میں جبری برخاستگیوں کے اعلانات کی بارش ہو رہی ہے۔ کمپنیاں اپنے اخراجات کم کرنے کے چکر میں لاکھوں محنت کشوں کو بیروزگار کر رہی ہیں۔ اس دوران یورپی سنٹرل بینک (ECB) شرح سود اور شرح نمو کی پیشگوئی کو کم کر رہا ہے۔ یہ یورپی سرمایہ داری کے تاریخی بحران کا اظہار ہے جس کے پاس مستقبل میں جبری کٹوتیوں اور مایوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

فی الحال غزہ میں خاموشی ہے۔ پندرہ مہینوں کے بعد ایک جنگ بندی معاہدہ ہو چکا ہے جس کے بعد اسرائیلی ریاست کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی اور فلسطینی علاقے کی مکمل تباہی رک چکی ہے۔

اس آرٹیکل کو لکھتے وقت، لاس اینجلس اور اس کے آس پاس کے علاقے چھ جنگلات کی بے قابو آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ اس ہولناک آفت میں کم از کم دس افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور لاس اینجلس کے کاؤنٹی شیرف (Los Angeles County Sheriff) ڈیپارٹمنٹ کو توقع ہے کہ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات کا حیران کن نتیجہ موجودہ صورتحال میں تیز طرار اچانک تبدیلیوں اور جھٹکوں کا آئینہ دار ہے۔ آخری لمحے تک میڈیا مبصرین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ انتخابات میں کچھ فرق کے ساتھ ہیرس ہی فاتح ہو گی۔ لیکن وہ ذلیل و رسوا ہو گئے۔

امریکیوں کو یہ سننے کی عادت پڑ چکی ہے کہ ہر انتخاب ”ہماری زندگیوں کا اہم ترین (انتخاب) ہے“۔ اس سال دونوں امیدواروں نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بحث عام کر دی ہے کہ یہ انتخابات امریکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں۔ ”ٹرمپ کی حمایت یا مخالفت؟!“۔ دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے اس سوال کو بقاء کا سوال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ ازم کیا ہے؟ اس سوال پر بہت زیادہ ابہام موجود ہے۔ اس بیماری کی درست تشخیص کیے بغیر یہ سمجھنا ناممکن ہے کہ امریکی سماج کی سمت کیا ہے۔

اس وقت پورے مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جہاں اسرائیل مغربی سامراجی قوتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ خطے کو مسلسل کُل علاقائی جنگ میں دھکیل رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر انسانیت کے سامنے سوال شدت سے موجود ہے؛ سوشلزم یا بربریت۔

یہ 1918ء کا زمانہ ہے اور نوزائیدہ روسی سوویت جمہوریہ کو حملوں، تخریب کاری اور بغاوت کا سامنا ہے۔ شاہ پرست، جاگیردار، سرمایہ دار اور سامراجی، روسی مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی فتح پر آگ بگولہ ہیں۔ وہ اسے کچلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

لینن نے ایک بار کہا تھا ”جنگ ایک خوفناک چیز ہے؟ ہاں، لیکن یہ ایک بہت منافع بخش چیز ہے“۔ مختلف سامراجی ممالک کے مابین موجودہ تنازعات اور پراکسی جنگوں کی شدت ایک بار پھر لینن کو بالکل درست ثابت کر رہی ہے۔ جبکہ ہزاروں لوگ غزہ، یوکرین، کانگو، سوڈان اور دیگر جگہوں پر قتل ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر دفاعی اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں، چند سرمایہ دار اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ مزدور طبقہ اس مہلک خرچ کی قیمت چکا رہا ہے۔

سرمایہ داری ایک بیمار نظام ہے جو اپنا ترقی پسندانہ سفر بہت پہلے پورا کر چکا ہے۔ اپنے شدید ضعف کے دور میں یہ جنگ، نسل پرستی، غربت اور بھوک کو جنم دیتا ہے۔ سرمایہ داری کا حتمی مرحلہ سامراجیت ہے جس کا خاصہ مختلف سرمایہ دار لٹیروں کے گروہوں کے درمیان لوٹ مار کی تقسیم کی لڑائی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات سے لوٹ کا مال سکڑ رہا ہے اور ان کی لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے جس کی وجہ سے ہم عسکریت پسندی اور جنگ کی طرف رجحان میں نیا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل بنگلہ دیشی طلبہ کی ولولہ انگیز بہادری کو لال سلام پیش کرتی ہے۔ ایک غلیظ کوٹہ نظام کے خلاف شروع ہونے والی تحریک قاتل حسینہ حکومت کے خاتمے کی تحریک بن چکی ہے۔ پوری دنیا کے 40 سے زائد ممالک میں موجود ہمارے کامریڈز آپ کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ بنگلہ دیشی طلبہ کی حق پرست تحریک پوری دنیا کے محنت کشوں اور طلبہ کی آواز ہے! پوری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں کیا ہو رہا ہے۔

حالیہ الیکشنز میں ٹوری پارٹی کو ایک بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے سٹارمر کو ایک بڑی اکثریت کے ساتھ نمبر 10 (برطانیہ میں وزیراعظم ہاؤس کے لئے استعمال ہونے والی اصطلاح) میں داخل کر دیا ہے۔ لیکن یہ نئی لیبر حکومت شدید بحرانوں کا شکار ہو گی۔ مزدور اور نوجوان جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنیں!

کانسٹینٹن سٹینسلاوسکی کو عام طور پر ’جدید اداکاری کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ’حقیقت پسند‘ میتھڈ نے تھیٹر کی دنیامیں انقلاب برپا کر دیا تھا اور یہ آج بھی ناظرین کے دل موہ لیتا ہے۔ اس آرٹیکل میں نیلسن وین نے سٹینسلاوسکی کی زندگی، اس کے خیالات اور اس ثقافتی بیداری میں اس کے کردار کو اجاگر کیا ہے جس کے بعد اکتوبر انقلاب برپا ہوا۔

کنیا کی عوامی بغاوت کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے آج ایک خطاب میں، کینیا کے صدر ولیم روٹو نے اعلان کیا کہ وہ فنانس بل جو کل پارلیمنٹ میں پاس ہوا تھا، قانون میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ وزراء کے ساتھ موجود روٹو نے وضاحت کی کہ نفرت انگیز بل کو پارلیمنٹ میں واپس بھیجا جائے گا، جہاں وہی لوگ جنہوں نے کل اسے 195 ووٹوں میں سے 106 ووٹوں کے ساتھ منظور کیا تھا، متفقہ طور پر منسوخ کریں گے۔