سپین انقلاب کی دہلیز پر Urdu Share Tweetجولیا ایس ویدانیا، ایڈنبرگ، سکاٹ لینڈ میں رہتی ہیں لیکن ان کا تعلق سپین سے ہے۔ حال ہی میں جولیا اپنے آبائی شہر میڈرڈ گئیں۔ سرمایہ داری کے جاری بحران اوریورپ میں ہونے والی پے در پے کٹوتیوں نے سماج کی ساری ٹھاٹھ باٹھ کے تانے بانے ادھیڑ کے رکھ دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں طبقاتی جدوجہد مزید گہری اور شدید ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے اس مضمون میں جولیا نے وہاں موجود انقلابی کشمکش اور سماجی تناؤ کو اپنا موضوع بنایاہے۔میڈرڈکی گلیوں میں گھومنا پھرناکبھی میری زندگی کے پر مسرت لمحات ہواکرتے تھے۔ یہ شہر کس قدر حسین ہواکرتاتھا اور اس میں کیا کیا کچھ نہیں ہواکرتا تھا۔ سماعتوں کو چھوتے سپین کے گٹاروں کے سراور ان مدھرسروں کے ساتھ کھانوں کی بھینی بھینی خوشبو، اس کے ساتھ اردگرد ہر طرف گھومتی پھرتی زندگی کے ہزارہا رنگ۔ غرض یہ ایک ایسا شہرتھا جو کبھی سوتاہی نہیں تھا اور نہ کبھی اداس ہوتاتھا۔ لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اس شہر سے روٹھ گیاہے۔ آج صرف بینکوں کے ریٹس گرنے اور خطرناک حدوں کو چھوتی بیروزگاری ہی ہر شخص کی فکر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔سکاٹ لینڈ میں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے حالات کبھی پیدا نہیں ہوں گے۔ میڈرڈ میں بھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوا کرتا تھا۔ میں جہاز سے اتری ہی تھی کہ تمام صورتحال اپنا احساس دلانے لگی۔ یہ ایک دھچکا تھا۔ آج ہر شخص معاشی، سیاسی، سماجی، غرض ہر سطح کے بحران کے بارے فکر مند ہے۔ میرے اردگرد ہونے والی تمام گفتگو کٹوتیوں اور ان سے پیداہونے والی مایوس معاشی صورتحال کے بارے میں تھی۔ آج ہر طرف ماضی میں خود کو مڈل کلاس کہنے والوں کی مایوسی مجھے محسوس بھی ہورہی ہے اور نظر بھی آرہی ہے۔ میں شہر میں جہاں بھی گئی ہوں، لوگوں کی گفتگو کا محورومرکزسیاست، معیشت اور موجودہ بحرانی حالات سے باہر نکلنے کی تگ ودوکی تدابیر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ میرے لیے اس سطح اور اس طرز کی گفتگو بہت حیران کن تھی کیونکہ کچھ سالوں پہلے تک ان سب لوگوں کے نزدیک سیاست پر گفتگو کرنا ہی ’سیاسی طور پر غلط‘ عمل ہواکرتاتھا۔لیکن اب راجوئے کی دائیں بازو کی حکومت نے کٹوتیوں کا جو وحشیانہ پروگرام جاری کیاہواہے، اس کے خلاف سپین کے لوگوں کی بھاری اکثریت ہڑتالوں احتجاجوں میں شریک ہورہی ہے اورلاکھوں افرادآئے دن اس احتجاج میں شامل ہورہے ہیں۔ ایساپہلے کبھی نہیں ہوا، نہ ہی کسی کی یاد داشت میں ایسا کچھ موجود ہے کہ ملک بھر سے لوگ بینرز اٹھاکر میڈرڈکی طرف آتے ہوں، حکومت کے خاتمے اور عوام کی حقیقی نمائندہ ایک نئی حکومت کے قیام کیلئے نعرے لگاتے ہوں۔ ان مظاہروں میں لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن میڈیا کسی طور ان کی سرگرمی، احتجاج اور مطالبات کو کوئی کوریج نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ انہیں معمولی نوعیت کے مظاہرے قراردینے کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہے۔ ہمیشہ جاگتے رہنے والے اس شہر کے لوگ اب حقیقتاً بیدار ہوچکے ہیں۔سپین کی حکومت اس عوامی بیداری کا جواب انتہائی پر تشدد طریقے سے دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈرڈ محاصررے میں گھرا ہو کوئی شہر ہو۔ اسے دیکھ کر ’پولیس سٹیٹ ‘کا تصور یاد آجاتا ہے۔ ہر طرف ہر وقت پولیس شہر میں گشت کرتی رہتی ہے۔ بہت ہی آہستہ لیکن مسلسل گشت۔ اس گشت کے دوران روشنیاں مسلسل آن رکھی جاتی ہیں اور ہر فرد پر کڑی نظرڈالی جاتی ہے۔ شہر کے ہر چوک پر آپ کو بے چینی کا احساس گھیر لیتا ہے، پولیس کی کار بھی رینگتی رینگتی آپ کے پیچھے چلتی آتی ہے، جبکہ درجن بھر لوگ، جن میں جوان اور بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں، گھورتے ہوئے اپنی نظروں سے گاڑی کا تعاقب کرتے ہیں۔لیکن اس صورتحال سے خود پولیس والے بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتی، وہ اپنی محفوظ گاڑیوں سے باہر نہیں نکلتے اور ہر ممکن حد تک خوفناک نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ مسلح بھی ہوتے ہیں۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ پولیس ہی کی تین یونینوں UFP ،CEP اور SSP نے حکومت کی کٹوتیوں کے اقدمات کو مسترد کردیاہے۔ ان اقدامات میں 2010ء میں پبلک سیکٹر ملازمین کی تنخواہوں میں 5فیصد کٹوتی، 2011ء اور 2012/13ء میں تنخواہوں کو منجمدکرنا، کرسمس کے موقع پر بونس ختم کرنا اور چھٹیوں کے دوران تنخواہیں کاٹ لینا شامل ہیں۔ یکم اکتوبر کو SSP نے اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی پریس ریلیز میں پولیس یونین نے حکومت کی جانب سے پولیس کے اپنے مفادات کیلئے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یونین نے عوام پر تشدد بڑھانے اور پولیس کے عوامی معاملات میں بے جا عمل دخل بڑھانے کی حکمت عملی کو ایک جبری اقدام قراردیاہے۔ مزید برآں سپین کی Soldiers For Democracy اور AUME نے بھی حکومتی اقدامات کی کھلے عام مخالفت کی ہے اور قراردیاہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہاہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سماجی حقوق کی بحالی کیلئے جو بھی اقدامات کئے جائیں گے ہم ان کی بھرپور حمایت کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح (جو کہ نوجوانوں میں23فیصد سے بڑھ کر53فیصد کو پہنچ چکی ہے )کی کیفیت میں، حکومت اصلاحی لیبر قوانین کے نام پر تنخواہوں میں کٹوتیاں اور عوامی منصوبوں کیلئے اخراجات میں کمی جبکہVATجیسے ٹیکسوں کی شرح میں 21فیصد اضافے جیسے اقدامات کر رہی ہے۔ اس وجہ سے سپین میں صورتحال میں تیزی سے تبدیلی ہورہی ہے اور عوامی غم وغصہ آپے سے باہر ہوتا جارہاہے۔میڈرڈ کی سڑکوں پر پر گھومتے ہوئے جو محسوسات جنم لیتے ہیں، ان کو اس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ ریاست نے خود کو سماج سے مکمل طور پر بالاتر کرلیاہے۔ ایسا اس لئے کیا جارہاہے کہ ملک میں پھیلے غم وغصے کی لہر پرقابو پایا جاسکے۔ ریاست یہ حربے ایک ایسے ڈھانچے کے ساتھ چمٹ کر استعمال کر رہی ہے جو خود ہی ہچکولے کھا رہا ہے۔ میڈرڈ کے وہ لوگ کہ جن کے صبرکے صبر کا پیمانہ ابھی لبریز نہیں ہوا ان کی جیبیں خالی ہوتی جارہی ہیں جبکہ راجوئے کی حکومت کے پاس وقت کم ہوتا رہا ہے۔نام نہاد میڈیا صورتحال کی صحیح عکاسی کرنے کی بجائے بنیادی عوامی مسائل کو سمجھنے یا ان کے بارے بنیادی معلومات فراہم کرنے اور حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے سے کھلم کھلا چشم پوشی اور بے اعتنائی برت رہاہے۔ یہ بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ سینکڑوں صحافیوں ملازمتوں سے فارغ کر دیاگیا ہے اوران کی جگہ حکومت زیادہ ’’معقول‘‘ اور ’’اعتدال پسند‘‘ افراد کو سامنے لارہی ہے۔ویلنشیا میں جب لیبر قوانین کے تحت ایک ہی بار 1295 صحافیوں کو (کل ملازموں کا75فیصد) ملازمتوں سے فارغ کردیاگیا تو ایک سو کے قریب صحافیوں نے ان اصلاحات کی مخالفت کرتے ہوئے براہِ راست خبریں نشر کرنے والے سٹوڈیو پر حملہ کر دیا۔ سات منٹ تک لوگ محنت کشوں کے اس قبضے کوبراہِ راست ٹی وی پر دیکھتے رہے جو کہ عوام کے مطالبات کی آواز بلند کر ہے تھے۔ پولیس نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے ’’امن و امان‘‘ قائم کیا اور فوری طورپراس پروگرام کو بند کرواکر اس کی جگہ سمندری ماحولیات پر ایک پروگرام شروع کرادیاگیا۔ اس قسم کی نامعقول سنسر شپ کی کوششوں سے لڑکھڑاتی حکومت قابل رحم حالت کا صاف پتہ چلتاہے اور ماضی قریب کے فاشزم کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔15ستمبر کو سپین کی ٹریڈ یونینوں CCOO اور UGT نے جب دوسرے اداروں کی ٹریڈ یونینوں کے ساتھ مل کر سپین کی نام نہاد ’’پاپولر‘‘پارٹی کے خلاف لاکھوں افراد پر مشتمل مظاہرہ کیا تو میں بدقسمتی سے اس میں شریک نہ ہو سکی۔ میں اگر وہاں موجود ہوتی تو شاید سیاہ رنگ پہنے پبلک سروسز کے ملازمین کے ساتھ مارچ کرتی۔ یہ پبلک سیکٹر میں شامل چھ شعبوں کے رنگوں میں سے ایک ہے۔ تعلیم کیلئے سبز، صحت کیلئے سفید، پبلک سروسز کیلئے سیاہ، ٹریڈ یونینوں کیلئے سرخ، فلاحی خدمات کیلئے اورنج، اسقاط حمل کیلئے بنفشی رنگ مخصوص کیے گئے۔ ہر جمعہ کے دن ان شعبوں کے محنت کش اپنے متعلقہ رنگ کا لباس پہنتے ہیں تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ان کی جدوجہد جاری ہے۔ ایساپولیس کی طاقت کے بڑھتے ہوئے دکھاوے کے جواب میں بھی کیا جارہا ہے۔ میں بھی اپنا شناختی کارڈ چہرے پر لگا کر کئی پولیس والوں کو منہ چڑاتی۔13 اکتوبر کو لاکھوں لوگوں نے مارچ کرتے ہوئے احتجاج کیا جسےM15کا نام دیا گیا۔ مجھے اس مارچ میں شرکت کا موقع ملا اس احتجاج کو میڈرڈ کے مرکز میں واقع Neptuno Square سے شروع ہوکر Sol Square پر ختم ہونا تھا لیکن مظاہرین کو دانستہ طور پر غلط معلومات دے کر Square Sol سے دور بھول بھلیوں میں الجھا دیا گیا۔ خوش قسمتی سے اس دن یہاں موسم انتہائی خوشگوار تھا اور Sol پہنچنے والے مظاہرین کا انتظار کرنے والے لوگوں نے ایک اور احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا۔ اس احتجاج کیلئے میں، میں بھی معاشی استحکام کا بینر لئے شریک ہوئی۔ میں نے لاکھوں محنت کشوں، نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کئے رکھی یہ سب اپنی تنخواہوں کے ختم یاکم ہونے کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ میں نے یہ شام ایک خوشگوار مظاہرے کو لطف لیتے ہوئے گزاری۔اس سے ایک ہفتہ پہلے CCOO نے ایسا ہی ایک احتجاجی مظاہرہ منظم کیاتھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ ایسے مظاہرے و ہ ہر ہفتے منظم کرتے آرہے ہیں۔ اس شام میری ان احتجاجی مظاہرین سے گفتگو کا خاتمہ ا س بات پر ہواکہ M15کیونکر ٹریڈ یونینوں کی حمایت نہیں کر رہا؟اس پر وہی پرانی دلیل سامنے آئی کہ ٹریڈ یونیز کی قیادت معقول نہیں ہے لہٰذہ یونین سازی کے عمل کو ہی یکسر رد کیاجارہاہے۔ لیکن میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ اب نیچے سے یونینوں پر بہت زیادہ دباؤ موجود ہے۔ یہی دباؤ تھا جس نے یونینوں کو29مارچ کی عام ہڑتال پر مجبورکیاتھا اور اب یہی دباؤان یونینوں کو 14نومبر2012ء کو پرتگال اور یونان کی عام ہڑتال میں شامل ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ مزید برآں اب ان یونینوں کے نمائندگان کے مابین ایک غیر معینہ ہڑتال کی باتیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ سارا شہربہت مصروف نظر آنے لگا ہے۔حکومت سہمی ہوئی ہے اور بالادست طبقہ جیسے کسی مصیبت میں آیاہواہے۔ محنت کشوں کے نزدیک ان کا سیاسی جواز بالکل ختم ہو چکاہے۔ لاکھوں لوگ حکومت سے مستعفی ہونے، سماجی انصاف کے نظام میں بہتری لانے اور سپین کے قرضوں کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑچکاہے۔ PSOE ایک نام نہاد سوشلسٹ پارٹی ہے اورحزب اختلاف بنی ہوئی ہے لیکن یہ کسی طور بھی حکومت کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اپنے سابقہ 8سالہ اقتدار کے دوران یہ پارٹی ہم جنس پرستوں کی شادی، اسقاط حمل جیسے ’’ترقیاتی‘‘ پروگراموں پر عمل پیرا رہی لیکن پھر تعمیرات اور ہاؤسنگ کے شعبے کے انہدام نے سارے ملک کی بنیادوں کو ہی جھنجوڑ دیا۔ سپین کی معاشی صورتحال ایسی ہوگئی کہ حکومت کو اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہی اقتدار چھوڑ دینا پڑا۔ نئے الیکشن ہوئے جن میں لگنے والے جھٹکے سے PSOE باہر نہیں نکل سکی ہے۔ یونائٹڈلیفٹ نے، جس کو سپین میں بائیں بازو کا حزب اختلاف سمجھا جارہا ہے، اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا۔ یہ پارٹی سپین کے بیشتر حصوں میں بہت مضبوط ہے۔ اس دوران بورژوازی سپین کے دوسرے حصوں میں قوم پرستی کا کھیل کھیل رہی ہے۔ سپین کا یہ سیاسی منظر نامہ وزیراعظم راجوئے کی راتوں کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہے۔کاروبار کیلئے بے یقینی کی کیفیت بہت براشگون ہوتاہے، اور معیشت کا مستقبل تاب دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ نظام ذاتی ملکیت کا کھیل ہے اور راجائے کے پاس سرمائے اور اس کے مفادات کو تحفظ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ سرمایہ داروں کے مرضی کو لاگو کرنے کے علاوہ راجوئے کی حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور نام نہاد جمہوریت کا پردہ چاک ہوتا جا رہا ہے۔سماج میں موجود تناؤ نا قابلِ تصور ہے۔ منتشر بایاں بازو، یونینز اور سماجی مہمات کے ذریعے سے اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ غربت میں رہنے والے ہزاروں سپینی لوگوں کی مدد کے لئے ریڈ کراس نے مہم شروع کر دی ہے۔ایسی صورتحال ایک مستقل اور مضبوط انقلابی پروگرام کا شدید تقاضاکررہی ہے جس کے تحت محنت کشوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحدومتحرک کیا جا سکے۔ ایک ایسے کھیت کی ضرورت ہے جس میں سماجی سطح پر انقلاب کے بیج بوئے جاسکیں۔ اس انقلاب کے ذرائع سیاسی ہوں اور اس کے نتائج معاشی ہوں۔ بطور مارکس وادی ہم محنت کش طبقے کے ساتھ اپنے پیہم رابطوں کی ضرورت اور ان سے مسلسل جڑت کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ یہاں سپین میں ہمارے جو کامریڈز کام کر رہے ہیں وہ یقینی طورپر شاندار ہے۔ بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کے خلاف سخت موقف اپنانا ضروری ہے۔ ہمیں یونینوں اور محنت کشوں کے کام کرنے کی سبھی جگہوں تک پہنچ میں مداخلت کرنی چاہئے۔ سپین میں چیزیں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہیں۔ لوگوں کے انقلابی ہونے کا عمل بھی تیز تر ہوتا جارہاہے۔ اس کے نتیجے میں اس کمزور حکومت کو اب لوگوں کے بپھرتے ہوئے غم وغصے کی لہروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پرتگال اور یونان کی حکومتوں کو بھی ایسی ہی کیفیت کا سامنا کرنا ہوگا۔ لوگ کا مزاج بدل رہا ہے اور بایاں بازو ریڈیکل ہو رہا ہے۔ ہمیں آنے والے وقت کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ہم محنت کشوں کے سامنے ایک انقلابی مستقبل تیار کھڑا ہے۔Translation: The Struggle (Pakistan)