نیشنل یوتھ مارکسی سکول (گرما) 2013ء Urdu Share Tweet7 اور 8 جولائی2013ء کوکشمیر کے شہر راولاکوٹ میں نیشنل مارکسی سکول (گرما) کا انعقاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان سے 270 سے زائدکامریڈز نے شرکت کی۔ دو روز تک جاری رہنے والا یہ سکول مجموعی طور پر چارسیشن پر مشتمل تھا۔ سکول سے ایک دن پہلے راولاکوٹ میں ایک یوتھ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔شہریار ذوقسکول کے پہلے دن کا پہلا سیشن ’عالمی تناظر‘ تھا جس پر کامریڈ شہریار ذوق نے لیڈ آف دی جبکہ اس سیشن کو چیئر کامریڈ راشد شیخ نے کیا۔ کامریڈ شہریار نے اپنی لیڈ آف میں سرمایہ داری کے عالمی معاشی بحران اور عالمی طور پر ابھرنے والے انقلابات کا تجزیہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج اس کرۂ ارض کا ہر گوشہ سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کا ثبوت پیش کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال جہاں جنگوں اور خانہ جنگیوں کو جنم دے رہا ہے وہیں انقلابات کا باعث بھی بن رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک ملک انقلابی عوامی تحریک کی زد میں آتا جا رہا ہے۔ 2011ء میں عرب سے شروع ہونے والا انقلاب بار بار انگڑائیاں لے رہا ہے۔ کبھی دنیا کے کسی ایک خطے میں تو کبھی دوسرے میں۔ مصر میں 2011ء میں حسنی مبارک کے اقتدار چھوڑنے کے بعد عمومی طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ مصر کا انقلاب اختتام پذیر ہو چکا ہے مگر ہم نے کہا تھا کہ انقلاب نے ابھی ایک مرحلہ ضرور طے کیا ہے مگر یہ ابھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا اور 30 جون 2013ء کو مصر کی گلیوں، چوکوں اور چوراہوں نے ہمارے تناظر کی سچائی کی گواہی دی۔ تحریک ایک بار پھر ابھری اور پہلے کی نسبت زیادہ شدت کے ساتھ اور محض تین دن میں مورسی کی حکومت کا خاتمہ کر گئی۔ ریاست نے ایک نیا حربہ استعمال کیا اور اس نظام کو بچانے کی ایک اور کوشش مگر محنت کش طبقے اور غریب اور محروم عوام کے لئے تحریک میں ایک نئے سبق کا آغاز ہوا ہے اور یہ اسباق نہ صرف مصر کا محنت کش طبقہ حاصل کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا ان تجربات سے نئے نتائج اخذ کر رہی ہے۔ ترکی میں ابھرنے والی انقلابی تحریک نے سامراج کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ برازیل، جس کو سرمایہ دارانہ دانشور نئی ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر دیکھ رہے تھے، کے عوام نے دنیا کو بتا دیا کہ ماضی میں تیزی سے ترقی کرنے والا برازیل اپنے ہی عوام کو بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے۔ یورپ اور امریکہ بدترین معاشی زوال کی چکی میں الجھ چکے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ کسی کو سجھائی نہیں دے رہا۔ محنت کشوں نے ماضی میں جو حاصلات لڑ کر حاصل کی تھیں، وہ ان سے واپس چھینی جا رہی ہیں مگر ان ریاستوں کے بحرانات اتنے شدید ہیں کہ ان کٹوتیوں سے ریاستوں کے بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ یہ بحران محنت کشوں کو دی گئی مراعات کی وجہ سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کا اظہار ہے۔ لیکن دنیا کے کسی بھی خطے میں ابھرنے والی کوئی بھی انقلابی تحریک اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہو پائی جس کی بنیادی وجہ کسی واضح متبادل یا انقلابی پارٹی کا فقدان ہے۔ لیڈ آف کے بعد سوالات ہوئے اور اس کے بعد عالمی تناظر کے حوالے سے لاہور سے کامریڈ آفتاب اشرف، دادو سے کامریڈ ضمیر، راولپنڈی سے کامریڈ آصف رشید، فیصل آباد سے کامریڈ رضوان، رحیم یار خان سے کامریڈ رئیس کجل، ملتان سے کامریڈ ماہ بلوص اور کامریڈ ذیشان، کشمیر سے کامریڈ دانیال اور کامریڈ ریحانہ، بلوچستان سے کامریڈ سرتاج، حیدرآباد سے کامریڈ راہول اور گوجرانوالہ سے کامریڈ اویس نے کنٹری بیوشنز کئے۔ عالمی معاشی اور سیاسی صورتحال پر تمام تر بحث کو کامریڈ آدم پال نے سم اپ کیا۔عمر رشیددوسرے سیشن میں ’پاکستان تناظر‘ پر بحث کی گئی جس کو چیئر کامریڈ ونود کمار کر رہے تھے جبکہ اس سیشن میں لیڈ آف کامریڈ عمر رشید نے دی۔ کامریڈ عمر نے اپنی لیڈ آف کے دوران پاکستان کی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال کا تجزیہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست ایک ناکام ریاست کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ ریاست اس قدر بحران زدہ ہو چکی ہے کہ اپنی حدود کے اندر بھی اس کی رٹ برقرار نہیں رہی اور ریاست کے ادارے باہم ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ جس کی وجہ سے تضادات نا قابل حل سطح تک جا چکے ہیں۔ جہاں ریاست کے ادارے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں، وہیں ان اداروں کے اندر بھی ایک پھوٹ موجود ہے۔ فوج، عدلیہ، مقننہ حتیٰ کہ ہر ایک ادارہ اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ کمیشن کا حصول اور کالے دھن میں حصہ داری کی لڑائی ہر ادارے کی بالائی پرت میں موجود ہے جس کی وجہ سے ہر سطح پر ہر ادارہ کرپشن کی زد میں ہے۔ پاکستانی ریاست کی معیشت کا انحصار صرف قرضوں پر ہے۔ IMF سے سخت سے سخت شرائط پر قرضے لئے جاتے ہیں اور پھر ان کی ادائیگی کے لئے مزید قرضوں کا حصول ضروری ہو جاتا ہے۔ جب عالمی مالیاتی اداروں سے معاشی امداد میسر نہیں آتی تو ریاستی اور نجی بینکوں سے قرضے لئے جاتے ہیں اور یہ عمل اتنی تیزی اور شدت سے جاری ہے کہ ایک بڑی کساد بازاری اور افراط زر کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس محنت کشوں پر شدید حملوں کے سوا کوئی راستہ ہے نہیں اور یہی معاہدہ یہ حکومت IMF سے کر کے نیا قرضہ حاصل کر رہی ہے۔ سو مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ریاستی اخراجات اور معاشی بوجھ کو کم کرنے کے لئے ریاستی ملکیت میں موجود اداروں کے حصے بخرے کر کے ان کو بیچا جائے گا۔ نجکاری کے بعد تو صورتحال دگرگوں ہو گی ہی مگر اتنے بڑے حجم کے اداروں کو بیچنا ریاست کے لئے درد سر بن چکا ہے جس کے لئے یہ مختلف اداروں کے نجکاری سے قبل ان کی ری سٹرکچرنگ اور ڈاؤن سائزنگ کریں گے۔ جس کے لئے سب سے پہلا حملہ ہر اس ٹریڈ یونین پر ہو گا جو نجکاری کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے گی۔پارس جانشریف برادران اور نون لیگ ویسے بھی محنت کشوں پر حملے کرنے اور ان کو دبانے کے معاملے میں خاصی تجربہ کار ہے۔ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا جو پہلے ہی خطرناک حدود عبور کر چکی ہے۔ تعلیم اور علاج تو پہلے بھی غریب اور محروم عوام کے لئے ایک خواب بن چکے ہیں۔ ریاستی خلفشار کم ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ بم دھماکوں، خودکش حملوں، بوری بند لاشوں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، مذہبی انتہا پسندی اور اس طرح کے دیگر اقدامات، جن سے محنت کش طبقے اور محروم عوام کو خوف میں مبتلا کیا جا سکے، میں مزید اضافہ ہو گا۔ لیکن محنت کش طبقہ ہر ایک دن ایک نیا سبق حاصل کر رہا ہے۔ اس نے مشرف کی آمریت کا سکول دیکھا ہے تو زرداری کی جمہوریت کا کالج بھی اور اب نواز شریف کی یونیورسٹی سے جب یہ ڈگری لے کر نکلے گا تو اس کے اندر ابلنے والا لاوا کسی بھی وقت پھٹ کر اس ریاست کو چیر کر رکھ دے گا مگر محنت کش طبقے کے میدان عمل میں اترنے سے پہلے ہمیں ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کرنا ہو گی۔ معروضی حالات میں موضوعی عنصر ہی مداخلت کر کے ایک انقلابی تحریک کو سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل کر سکتا ہے۔لیڈ آف کے بعد سوالات ہوئے اور پھر اس سیشن میں پختونخواہ سے کامریڈ سلیمان، لاہور سے کا مریڈ عاطف اور کامریڈ فیضان، کراچی سے کامریڈ فارس، سوات سے کامریڈ مسکان، کشمیر سے کامریڈ تنویر، سیالکوٹ سے کامریڈ حسن نے کنٹری بیوشنز کئے۔ دوران کنٹری بیوشنز کامریڈ مریم نے انقلابی نظم بھی سنائی۔ کنٹری بیوشنز کے بعد سوالات کی روشنی میں کامریڈ پارس جان نے اس سیشن کو سم اپ کیا۔راشد خالدسکول کے دوسرے روز کا پہلا سیشن اور مجموعی طور پر تیسرا سیشن ’’فلسفہ، منطقی ثبوتیت اور جدلیاتی مادیت‘‘ کے موضع پر تھا جس پر لیڈ آف کامریڈ راشد خالد نے دی جبکہ اس سیشن کو چیئرمین کامریڈ ساجد عالم کر رہے تھے۔ کامریڈ نے اپنی لیڈ آف کے دوران کہا کہ دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ دارانہ ریاستوں کے حکمران اور ان کے دانشور پھولے نہیں سما رہے تھے اور اس فتح کی غلط فہمی میں انہوں نے بہت شادیانے بجائے اور اس نشے کی بدمستی میں وہ تاریخ کے اختتام کا اعلان کر گئے اور ساتھ ہی ساتھ مارکسزم کے خلاف ایک نیا طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا کہ سوشلزم ناکام ہو چکا ہے۔ لیکن بعد کے حالات اور تجربات آج ایک مرتبہ پھر محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ اگر سوشلزم غلط تھا تو درست کیا ہے؟ سوشلزم اور مارکسزم کو غلط قرار دینے والے کبھی مارکسزم کی اساس کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ کیونکہ مارکسزم کی اساس کو سمجھنے کے لئے جس فلسفے کی ضرورت ہے وہ جدلیاتی مادیت کا فلسفہ ہے اور سرمایہ دارانہ دانشور جس رسمی منطق کی بنیاد پر اس کو سمجھنے یا پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ مدت ہوئی اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روز مرہ کی زندگی گزارنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہم فلسفے کی خشک اور مشکل بحث میں الجھیں لیکن جب ہم ایک سماج کی تبدیلی کی جدوجہد میں شریک ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سماج، فطرت اور انسانی ذہن و شعور کی ترقی میں پنہاں عوامل کو سمجھیں اور وہ گتھیاں سلجھائیں جو صرف فلسفے کا ہی خاصہ ہیں۔ فلسفے میں ابتدائی کام یقیناًقدیم یونانیوں کا تھا، ایک حد تک وہ جدلیاتی منطق کو سمجھتے بھی تھے مگر ان کا اصل کا م رسمی منطق کو استوار کرنے تک رہا جو بعد کے دو ہزار سالوں تک فلسفے کا بنیادی طریقہ کا ررہا ہے۔ انہی یونانی فلاسفروں نے فلسفے میں دو مکاتب فکر کی بنیاد بھی رکھی جن میں سے ایک خیال پرستی کا تھا جس کے مطابق خیال یا شعور مقدم ہے اور فطرت اور اس میں رونما ہونے والے مظاہر کی اساس ہے اور مادہ خیال کا عکس ہے اور دوسرا مادہ پرستی کا تھا جس کے مطابق مادہ بنیاد ہے اور شعور مادے سے جنم لیتا ہے۔ مگر سماج اور سائنس کی ترقی نے جس نئے افق اور علم کو انسان پر آشکار کیا اس کی تشریح رسمی منطق کی بنیاد پر ممکن نہیں رہی تھی۔ اس وقت جرمن فلسفی ہیگل نے ماضی کہ تمام فلسفے کا ازسر نو مطالعہ کیا اور جدلیاتی منطق کو استوار کیا۔ مگر ہیگل کی جدلیات سر کے بل کھڑی تھی کیونکہ وہ مادے میں ہونے والی تبدیلی کو مابعدالطبیعاتی مطلق خیال کے ساتھ جوڑ دیتا ہے اور خیال پرستی کی طرف چلا جاتا ہے جس کو بعد میں مارکس نے سیدھا کھڑا کیا اور جدلیات کو مادی بنیادیں فراہم کیں۔ مارکس اور اینگلز کے بعد کوئی بڑا فلسفی نہیں آیا۔ مارکس کے بعد آنے والے فلسفیوں نے یا تو مارکس کے حق میں لکھا یا مخالفت میں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مارکس کے بعد کسی فلسفی نے کوئی فلسفہ نہیں دیا۔ ہمیں جدید تاریخ فلسفیوں کے ناموں سے بھری ہوئی ملتی ہے مگر ان میں سے کسی فلسفی کا فلسفہ کوئی نیا فلسفہ نہیں تھا۔ بلکہ وہی پرانی شراب نئے مرتبانوں میں سجا کر پیش کی جاتی رہی۔ الفاظ کا ہیر پھیر کیا جاتا رہا مگر کوئی نئی بات ہمیں ان فلسفیوں کے کام میں نہیں ملتی۔ماہ بلوصجدلیاتی مادیت کے فلسفے اور باقی تمام فلسفوں میں ایک بنیادی فرق اور بھی ہے اور وہ یہ کہ باقی کوئی بھی فلسفہ نظام اور انسانی حالات کی تبدیلی کی لڑائی کا درس نہیں دیتا بلکہ مصالحت کا پرچار کرتا ہے جبکہ مارکسزم کا فلسفہ جدلیاتی مادیت عمل اور اس نظام سے بغاوت کی طرف لے کر جاتا ہے۔ ’’فیورباخ پر تھیسس‘‘ میں مارکس نے لکھا تھا کہ ’’ فلسفیوں نے دنیا کی تشریح کی ہے، مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے۔‘‘ یہی مسئلہ آج اس کرۂ ارض پر بسنے والے اربوں انسانوں کا ہے۔ لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا۔ گوجرانوالہ سے کامریڈ صبغت اور کامریڈ مشعل، فیصل آباد سے کامریڈ ارتقا، سوات سے کامریڈ خولہ، کشمیر سے کامریڈ ریحانہ، ملتان سے کامریڈ ماہ بلوص اسد، حیدرآباد سے کامریڈ انور، پختونخواہ سے کامریڈ صدیق، جامپور سے کامریڈ ظفر نے کنٹری بیوشنز کئے۔ کنٹری بیوشنز کے بعد تمام تر بحث کو کامریڈ راشد خالد نے سم اپ کیا۔آدم پالسکول کا مجموعی طور پر چوتھااور آخری سیشن ’’انقلابی پارٹی کی تعمیر‘‘ تھا جس کو چیئر کامریڈ ماہ بلوص اسد نے کیااور لیڈ آف کامریڈ آدم پال نے دی۔ کامریڈ نے اپنی لیڈ آف میں انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لئے ہماری حکمت عملی، طریقہ کار اور لائحہ عمل کے حوالے سے تفصیلی بات رکھی۔ لیڈ آف کے بعد اسی سیشن میں تمام تر ریجنز سے آئے ہوئے یوتھ کے نمائندوں نے ریجن میں تنظیمی کام کی رپورٹس بھی رکھیں اور نئے کام کے امکانات پر بات کی اور ساتھ ہی ساتھ نئے ٹارگٹس بھی لئے گئے۔ اس کے بعد کامریڈ آدم پال نے سکول کا سم اپ کیا۔ سکول کا سم اپ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ہال میں بیٹھے ہوئے نوجوانوں کا عزم، حوصلہ، جرأت اور نظریات کو سمجھنے اور سیکھنے کی تڑپ اس بات کا اظہار ہے کہ ہمیں ہیں جو اس کرۂ ارض سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سویرے کی بنیاد رکھیں گے۔ ’’یہیں پہ گلاب ہیں، یہیں پہ رقص ہو گا، اور یہاں انقلاب کا جشن ہو گا۔ ‘‘آخر میں انٹرنیشنل کے ساتھ سکول کا اختتام کیا گیا۔