پہلی یورپ گیر عام ہڑتال Urdu Share Tweet14نومبر کو سارے یورپ میں طبقاتی جدوجہد کاایسا طوفان آیا جس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ 23 ممالک میں چالیس یونینوں نے عام ہڑتالیں، ہڑتالیں، احتجاج اور مظاہرے کیے۔ یہ سب ان کٹوتیوں کے اقدامات اور معیارِ زندگی پر کیے جانے والے حملوں کے خلاف ہوا جو بر سر اقتدار حکومتیں اس بر اعظم میں بوسیدہ اور بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے کر رہی ہیں۔ اس ’یومِ عمل و یکجہتی‘ کی کال یورپی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن نے دی تھی جس کی وجہ نیچے سے ان محنت کشوں اور نوجوانوں کا بڑھتا ہوا دباؤ ہے جو اجرتوں، پینشن، سماجی سہولیات میں ہونے والی کمی اور دیگر کٹوتیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بارسلونا کے مظاہرے میں کمیونسٹ ٹریڈ یونین فیڈریشن (CCOO) کے بینر پر لکھا تھا ’’ہم اس دن کی شروعات کر رہے ہیں جو یورپ میں یونینوں کی تاریخ میں سنگِ میل ہو گا‘‘۔ 2008ء کے معاشی انہدام اور بینکوں کے دیوالیہ ہوجانے نے 1929ء کے ڈیپریشن کے بعد سرمایہ داری کے سب سے بڑے مالیاتی انہدام کو جنم دیا۔ حکومتوں نے ان طفیلی بینکوں اور بڑے کاروباروں کو بچانے کی خاطر ریاستی خزانے سے اربوں یورو (Bailout) کے طور پر دیے جس سے 2012ء میں ریاستیں دیوالیہ ہونے لگیں جبکہ محنت کشوں کو اس سب کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔اس کے خلاف یورپی محنت کش طبقہ میدان میں اتر آیا۔ سپین، اٹلی، یونان اور پرتگال میں عام ہڑتالیں اور محنت کشوں اور پولیس کے مابین پر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین کے خلاف ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا اور صرف میڈرڈ میں 82افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سپین کے دارلحکومت میڈرڈ کے مظاہرے میں ایک بینر پر لکھا تھا’’وہ ہم سے ہمارا مستقبل چھین رہے ہیں‘‘۔ اٹلی کے شہر میلان میں شدید جھڑپیں ہوئیں اور ہڑتال سے دارلحکومت روم جام ہو گیا۔ نیپلز اور بریشیا میں مظاہرین نے ریل کی پٹڑی پر قبضہ کر لیا۔ جنیوا میں بندر گاہ کے داخلی راستے کو بند کر دیا گیا۔ پیسا میں مظاہرین نے جھکے ہوئے مینار کی چھت سے بڑے بڑے بینر ٹانگ دیے۔ جبکہ وینس میں مظاہرین نے ایک بینک کے باہر بینر لگائے جن پر لکھا تھا کہ ’’تم ہمارے قرضوں سے کمائی کر رہے ہو‘‘۔ ویانا میں سینٹ سٹیفن کے گرجے کے نیچے 350کے قریب افراد سرتاکی (یونانی) ناچ ناچ رہے تھے جس کا مقصد کٹوتیوں کے خلاف لڑتے یونانی اور یورپی محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھا۔ پرتگال کے شہرلزبن میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھے گئے۔ یونان میں دو برس سے کم عرصے میں یہ انیسویں عام ہڑتال تھی۔ مظاہرے میں شامل ایک نوجوان ماہر سماجیات کوسٹاس کاپیٹاناکس نے گارڈین اخبار سے کہا’ ’ میں ہر جگہ سب لوگوں سے یہی سن رہا ہوں کہ ابھی تک ان کا گزارہ صرف والدین کی جانب سے امداد اور خاندان کے سہارے ممکن ہو سکا ہے۔ لیکن جب ان کا خاتمہ ہو جائے گا، اور ان اقدامات کے نتیجے میں یہ ختم ہوں گے، تو مل کر سڑکوں پر نہ آنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ بغاوت ہوگی کیونکہ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہو گا‘‘۔بیلجئیم کے دارلحکومت برسلز میں بڑے مظاہرے ہوئے اور ریل کے مزدوروں نے ہڑتال کی۔ مشہور زمانہ تیز رفتار ریل تھیلس معطل ہو گئی۔ اسی طرح سات سو پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ فرانس میں مختلف شہروں میں130مظاہرے ہوئے۔ پیرس، ٹولوز، مارسائی اور فرانس کے دیگر شہروں سے پولیس اور مظاہرین کے مابین پر تشدد جھڑپوں کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔ جرمن محنت کشوں نے بھی باقی یورپ کے مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد کی حمایت میں مظاہرے کیے۔ جرمنی کی سب سے بڑی یونینوں میں سے ایک ڈی جی بی نے برلن، فرینکفرٹ، ہیمبرگ اورجرمنی کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے۔ لندن میں ویسٹ منسٹر میں ریلی نکالی گئی اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے۔ برطانوی ٹریڈ یونین کونسل (TUC)نے یورپی کمیشن کے نام خط میں لکھاکہ’’یورپی کمیشن، آئی ایم ایف اور پورپین کامن بینک کی جانب سے کٹوتیوں کے اقدامات عدم توازن میں اضافہ اور نا انصافی کو شدید کریں گے۔ محنت کشوں اور شہریوں پربیروزگاری، اجرتوں میں کمی، معیارِ زندگی اور سماجی سہولیات میں گراوٹ کی شکل میں اس بحران کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں‘‘۔ یورپ کوجدید تاریخ میں سب سے بڑی بیروزگاری کا سامنا ہے۔ یورپی یونین میں مجموعی شرحِ بیروزگاری 11.6فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ نوجوانوں میں یہ23.3فیصد ہے۔سرمایہ داری کا خلقی بحران اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ اس نے یورپی سماجوں کو ایک شیطانی چکر میں پھنسا دیا ہے۔ کٹوتیوں کے خوفناک اقدامات کے نتیجے میں سماجی فلاح و بہبود کا نظام ٹوٹتا ہے جس سے منڈی سکڑتی ہے اورصارفین کے اخراجات میں کمی آتی ہے جو شرح نمو میں کمی اور صنعتوں کی بندش کا باعث بنتی ہے اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوتاہے۔ اگر وہ سماجی شعبے میں اخراجات جاری رکھیں تو اس کا نتیجہ ریاستوں کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اب سرمایہ داروں کے منافعوں کی شرح کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے پاس بڑے پیمانے کی کٹوتیاں اور عام لوگوں کے معیار زندگی پر شدید حملے کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں عوام کو ایک نیا معمول زندگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سات نسلوں کے بعد یورپی عوام کو فلاحی ریاست کی سہولیات اور ان اصلاحات سے محروم کیا جا رہا ہے جو سخت جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔ بدھ کے یورپ گیر مظاہرے در حقیقت اس نظام کو مسترد کر رہے تھے جو اب سماج کو ترقی دینے میں ناکام ہو گیاہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سارے یورپ میں انقلابی ہلچل تھی۔ یہ تحریک محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں اور یونینوں کے لیڈروں کے ہاتھوں ناکام ہو گئی۔ 1948ء سے1974ء کے مغربی سرمایہ داری کے ابھار کی بنیاد جنگ سے تباہ حال یورپ کی بڑے پیمانے پر تعمیر نو اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک کا شدید استحصال تھا۔ اس قدرزائد کے بل پر اصلاح پسند پارٹیاں اور یونینیں اصلاحات اور نیچے سے ابھرنے والی بغاوتوں کو زائل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر اور 1970ء کی دہائی کے آغاز میں یورپ پر چھا جانے والے انقلابی طوفان کا رخ روایتی پارٹیوں کے اصلاح پسند لیڈروں کے ذریعے موڑ دیا گیا۔ عوامی انقلابی پارٹی کے فقدان کی وجہ سے یہ انقلابی تحریکیں سوشلسٹ فتح سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔یہ آپشن اب ختم ہو چکے ہیں۔ بستر مرگ پر پڑی سرمایہ داری اتنی قدر زائد پیدا نہیں کر سکتی جس سے سماجی فلاح و بہبود کا نظام چل سکے۔ اس کے برعکس آج کا بیمار سرمایہ دارانہ نظام اپنے بے پناہ شرح منافع کو قائم رکھنے کے لیے ریاست سے بڑے پیمانے پر پیسے لے رہا ہے۔ امیر بے پناہ امیر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غربت، بیروزگاری اور محرومی عوام کی اکثریت کو برباد کر رہی ہے۔ حالیہ دور کی تحریکیں اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہیں کہ یورپ ایک مرتبہ پھر سے عالمی انقلاب کا مرکز بننے کی طرف جا رہاہے۔ حالیہ عوامی تحریک میں سپین میں متحدہ لیفٹ (Izquierda Unida) کے اندر مارکسی رجحان طبقاتی جدوجہد (Lucha de Clases) نے تاریخی حجم کے اس دلخراش بحران کے حل کے لیے ایک متبادل پروگرام پیش کیا ہے۔ اس کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے ’’ایک نیا یورپ ممکن ہے، ایسا یورپ جو آبادی کی اکثریت کا تحفظ کرے۔ بینکاروں اور امرا ء کا یورپ نا منظور!یہ سوچ یورپی یونین کی آبادی کی بڑی اکثریت کو متحد کر سکتی ہے۔ یورپ کے مسائل کا واحد حل سوشلسٹ ریاستہائے متحدہ یورپ ہے‘‘۔Source: The Struggle (Pakistan)