نائن الیون اور بے رحم دہشت ۔ لال خان Urdu Share Tweetآج دو ہزار گیارہ میں نیو یارک میں ہونے والے وحشت ناک حملے کو دس برس ہو گئے ہیں جس میں تین ہزار بے گناہ لوگ قتل اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔اس دن کو منانے کے لیے نیو یارک میں ایک شاندار تقریب منعقد کی جائے گی جس میں امریکہ کے اشرافیہ جھوٹی حب الوطنی اور شاؤنزم کا پرچار کریں گے تا کہ معاشی بربادی اور سماجی تنزلی کا شکار تاریخ کی طاقتور ترین سلطنت کے محنت کش طبقے کو فریب دیا جا سکے۔اسی دوران ملا منبروں سے چیخ چیخ کر باطل اور کفر کے خلاف نیکی اور ایمان کی فتح کا اعلان کریں گے جس کا مقصد اس خطے کو برباد کر دینے والے مذہبی جنون کو ہوا دینا ہے۔در حقیقت گیارہ ستمبر کا حملہ مذہبی بنیادپرست جنونیوں کی جانب سے ایک وحشت ناک کاروائی تھی جس کا شکار بننے والوں کی اکثریت امریکی محنت کشوں کی تھی جو پہلے سے ہی بحران زدہ امریکی سرمایہ داری کے استحصال اور جبر کا شکار تھے۔ان مذہبی جنونیوں نے نا صرف امریکہ میں تباہی مچائی بلکہ پاکستان اور مسلم آبادی کے دیگر ممالک میں ہزاروں محکوم مسلمانوں کو قتل اور اپاہج بنا دیا ہے۔ یہ اندھیری رجعتی قوتیں بائیں بازو کے انہدام کے بعد پیدا ہونے والے خلا کی پیداوار ہیں اور اس ہلکی رجعت کے عہدمیں سماج گہرے ہوتے معاشی بحران اور بڑی تبدیلی کے لیے نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریکوں میں نسبتاً جمود سے جنم لینے والی یاس کی جکڑ میں ہیں۔تاہم ، یہ بھی درست ہے کہ اس عارضی عمل کو سامراجیوں نے اپنے فائدے کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش اور استعمال کیا ہے۔گیارہ ستمبر کے خوفنات واقع کا سنجیدہ اور پیش بین تجزیہ کرنے کی بجائے سازشی کہانیاں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔یہ بے ہودہ اور پراسرار تھیوریاں جانبدار اور محض مذہبی اور نسلی تعصبات کا اظہار تھیں۔دوسری جانب نائن الیون کمیشن کی سرکاری رپورٹ غیر واضح اور مبہم ہے جس کا مقصد اس وحشت ناک کاروائی میں ملوث افراد کے عزائم پر پردہ ڈالنا تھا۔ اس سے عام عوام کی کنفیوژن میں اضافہ ہوا ہے، نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا میں۔دیوار برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سامراج کے عظیم نظریہ دان فرانسس فوکویاما نے ’تاریخ کے خاتمے‘ کا تھیسس پیش کیا۔ انتہائی مہارت سے اختراع کردہ یہ تھیسس اپنی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی تاریخ کے ہاتھوں پٹ گیا۔ سرمایہ داری ایک دفعہ پھر بحران میں چلی گئی اور اس کے بارے میں تصورکہ یہ انسانیت کا حتمی مقدر ہے خاک میں مل گیا۔پھر اس دورکے ایک انتہائی زہین شخص سیموئیل ہنٹنگٹن نے انیس سو ستانویں میں ’تہذیبوں کے تصادم‘ میں مقدس جنگ کا رجعتی نظریہ پیش کیا۔افغانستان اور دیگرجگہوں پر بنیاد پرستوں کے ساتھ معاملات بگڑنے کے بعدامریکیوں نے اس رجعتی عمل کو پہلے سے الٹ انداز میں استعمال کرکے اسے ’ مغربی تہذیب‘ کے لیے ایک بیرونی خطرے کے طور پر پیش کر کے اپنے منافعوں اور استحصال کو بڑھانے کے لیے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے محنت کشوں کو دبانے کی کوشش کی۔اس پراپیگنڈے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اسامہ بن لادن جیسے اسلامی بنیاد پرست کردار تراشے گئے اور طبقاتی جدوجہد کو کمزور اور سبوتاژ کرنے کے لیے سماجوں کو خوف میں مبتلا کر دیا گیا۔لندن سکول آف اکنامکس کے فواز گرگس اپنی کتاب ’القاعدہ کا عروج و زوال میں لکھتے ہیں کہ’’القائدہ کبھی بھی اتنی بڑی راکھشس نہیں تھی جتنا اس کے بارے میں سمجھا جاتا تھا۔اسے صرف خودغرض سیاست دانوں اور بے علم میڈیا کی جانب سے پھیلائے جانے والے خوف نے زندہ رکھا ہوا تھا۔گیارہ ستمبر کے دس سال بعد بھی، ضرورت سے زیادہ رد عمل دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا خاصہ ہے‘‘۔القاعدہ اور اس جیسے دیگر گروہ کوئی متحدہ اکائی نہیں تھے جیسا کہ بورژوا میڈیا دکھاتا ہے۔ یہ ٹکڑوں میں بٹا اور ڈھانچوں کے بغیر گروہ تھا جس کی بنیاد بڑی حد تک ذاتی تعلقات اور خود ستائشی پر مبنی غلط فہمیاں تھیں مثلاً یہ کہ افغانستان میں سویت یونین کو مجاہدین کے ہاتھوں شکست ہوئی وغیرہ، اور اسے مغربی میڈیا نے بڑھا چڑھاکر دکھایا ہوا تھا۔ امریکہ کی افغانستان میں سی آئی اے کے پالے ہوئے اپنے بنیاد پرست شاگردوں سے کنارہ کشی اختیار کر نے کے بعد ان کا وجود سعودی عرب، پاکستان اور دیگر آمرانہ ریاستوں کی کچھ ریاستی ایجنسیوں کی معاونت سے قائم رہا جو ان بنیاد پرست جنونیوں کواپنے سٹرٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھیں۔کالے دھن کی معیشت جس سے یہ گروہ منسلک تھے، میں مالی مفادات کے تنازعات نے ان میں جھگڑوں کو جنم دیا جس سے یہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔’ایجنسیوں‘ کے کنٹرول سے باہر الگ شدہ دھڑوں کو خود کو ثابت کرنے کے لیے زیادہ بربریت اور درندگی کا سہارا لینا پڑا۔ اس طرح سے بربریت اور دہشت گردی کے اس چکر نے مزید خودکش حملوں اور قتل و غارت کو جنم دیا جو اب تک پاکستان اور افغانستان کو تاراج کر رہے ہیں۔ تاہم‘سامراجی ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے نظریے کو استعمال کیے جا رہے ہیں اور نو ، گیارہ کے بعد تو اور بھی زیادہ۔اسلامی بنیاد پرستوں نے اس پالیسی سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے۔ حتیٰ کہ جوناتھن فری لینڈ نے گارڈین اخبار میں شائع مضموں میں اعتراف کیا کہ’’خارجہ پالیسی کا ایک نیا نظریہ بہت عجلت میں ترتیب دیا گیا۔ اس کے مطابق دنیا کو لاحق واحد ،ہمہ گیر اور مستقل خطرہ پر تشدد جہادی ازم سے ہے۔۔۔اور بات خارجہ پالیسی سے کہیں آگے نکل گئی۔ اسلام اور مغرب کے مابین تہذیبوں کی جنگ میں ثقافت کو بھی ہتھیار بنانا پڑا ۔ ۔ ۔‘‘ نو گیارہ سے کچھ سال قبل تک جہاد اور مجاہدین جیسے الفاظ مغرب کے لیے بہت بلند و برتر معنی رکھتے تھے۔گزشتہ ستر کی دہائی پر نظر ڈالیں اور ایماندارانہ تجزیہ کرنے پر انتہائی واضح ہو جاتا ہے کہ سامراج اور بنیاد پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔آخر دونوں کا معاشی نظریہ تو ایک ہی ہے۔لیکن یہ نہ ختم ہونے والی جنگ عسکری صنعت کے لیے بہت منافع بخش رہی خاص طور پر امریکہ میں۔ سکیورٹی کا ایک بہت بڑا نظام کھڑا کر دیا گیا ۔ بارہ سو ستر حکومتی ادارے اور انیس سو اکاتیس نجی کمپنیاں دہشت گردی کے خلاف پروگراموں میں کام کر رہی ہیں۔لاک ہیڈ مارٹن سے لے کر جنرل ڈائنیمکس اورہیلی برٹن سے لے کر ڈائن کارپ جیسی کمپنیوں نے بے حد منافع کمائے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں سامراجی جنگ اور تناؤ کے شکار ہندوستان کو اسلحے کی فروخت سے امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو ابھار ملا ہے۔ لیکن امریکہ کے محنت کش طبقے کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔انہیں20 سال تک تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کا سامنا ہے، بے روزگاری ان دیکھی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور امریکی عوام کٹوتیوں کے خونخوار پروگرام کا سامنا کر رہے ہیں اور مزید افراد صحت کی سہولیات سے محروم ہو رہے ہیں۔ لیکن آخر کب تک وہ ان بے رحم حملوں کو سہتے رہیں گے؟ امریکی عوام ان آزادیوں سے محروم ہو رہے ہیں جو انہوں نے دو سو سال میں لڑ کر جیتی تھیں۔ امریکی صدر نے جوائنٹ سپیشل آپریشن کمانڈ (Joint Special Operations Command)کو گرفتار ی کی بجائے کسی بھی شخص کو چن کر قتل کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔لیکن امریکہ اپنے تاریخی زوال سے گزرتا ہوا ایک اور سامراج ہے۔ اکانومسٹ کے تازہ ترین شمارے کا اداریہ لکھتا ہے ’’ آج سے دس برس قبل کی پوری دنیا پر چھائی بے حد قوی طاقت اب اعتماد کھو چکی ہے اور سنبھلنے کے موقع کی متلاشی ہے‘‘۔ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے یہ موقع نہیں مل سکتا۔امریکہ کے طاقتور پرولتاریہ کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اٹھنا ہو گا اور اس نظام کا تختہ الٹنا ہو گا جو ایک لا امتناہی اذیت ہے۔ ٹراٹسکی نے بہت عرصہ قبل لکھا تھا کہ ’’ریاستہائے متحدہ امریکہ وہ بھٹی ہے جس میں نسل انسانی کا مستقبل تیار ہو گا‘‘۔ امریکی محنت کشوں اور نو جوانوں پر ایک تاریخی ذمہ داری ہے۔ انہیں ایک فریضہ ادا کرنا ہے۔Source: Chingaree.com (Pakistan)