ہندوستان: تامل ناڈو پولیس کے ہاتھوں پرامن مظاہرین کا قتل عام Urdu Share Tweetتامل ناڈو انڈیا میں درجنوں پر امن مظاہرین کو ریاستی اداروں نے اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جب وہ ایک ایسی فیکٹری کی بندش کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے جو ماحول کی خرابی اور مقامی لوگوں کی اموات کا باعث بن رہی تھی۔ لوئی تھامس تامل ناڈو سے رپورٹ کرتے ہیں۔[Source]سٹرلائٹ ایک تانبا پگھلانے کا پلانٹ ہے جو تامل ناڈو کے جنوبی حصے میں ٹوٹیکورن (تھوتھکودی) کے مقام پر واقع ہے۔ یہ برطانوی کمپنی ویدانتا(Vedanta) پرائیویٹ لمیٹڈ کا ذیلی ادارہ ہے جو برطانیہ میں مقیم انیل اگروال کی ملکیت ہے۔ اس کے پورے انڈیا اور دوسرے ملکوں میں بھی پلانٹس موجود ہیں۔ انڈیا کے بڑے علاقے اور تامل ناڈو جیسی ریاستیں قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں جو کہ برطانوی سامراج کے استعمار کی بھی ایک وجہ تھی، اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی سرمایہ دار اس طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ویدانتا نے ماحولیاتی قوانین اور انسانی حقوق کو پامال کر کے اپنے خزانوں کا منہ بھرا ہے۔ مگر گوا اور راجستھان میں عوام کی شدید مزاحمت کے باعث اسے اپنے پلانٹ بند کرنا پڑے۔ اس سے قبل اڑیسہ کی ریاستی حکومت نے نیاماگری پہاڑیوں میں انہیں باکسائٹ کی کان کنی کی اجازت دی تھی مگر وہاں بھی قبائلی عوام کی شدید مزاحمت کے باعث یہ منصوبہ روکنا پڑا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بھی ماحولیاتی قوانین کی پامالی کو لے کر ان کے پلانٹس بند کرنے کا حکم دے چکی ہیں۔تھوتھوکودی میں سٹرلائٹسٹرلائٹ کاپر پلانٹ ویدانتا کا ذیلی ادارہ ہے جسے پہلے 1993ء میں مہاراشٹر کے ساحلی ضلع رتنگری میں تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی تھی مگر بعد میں ماحولیاتی آلودگی کو لے کر عوام کی شدید مزاحمت کی وجہ سے اس کی تعمیر روکنا پڑی۔ پھر اسے تھوتھوکودی منتقل کر دیا گیا، ایک ایسا علاقہ جہاں لوگ گزر بسر کے لیے زراعت، ماہی گیری اور تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔ تامل ناڈو کے انسدادِ آلودگی کے بورڈ (TNPCB) نے اس شرط پر یہ منصوبہ شروع کرنے کی اجازت دی کہ پلانٹ خلیج منار سے 25 کلومیٹر دور تعمیر کیا جائے گا اور اس کے ماحول پر پڑنے والے اثرات (EIA) کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔ مگر 1996ء میں ان تمام شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصوبہ شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی۔فضائی اور آبی آلودگیگیسوں کے اخراج کی وجہ سے پلانٹ کے ارد گرد موجود ہوا اور پانی مکمل طور پر آلودہ ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے مقامی لوگ جلد کی بیماریوں، سر درد اور یہاں تک کہ کینسر کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔نیوز منٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1998ء میں NEERI (ماحولیاتی انجینئرنگ کا قومی تحقیقاتی ادارہ) کی ابتدائی تحقیق کے مطابق سٹرلائٹ گرین بیلٹ قائم کرنے میں ناکام رہا تھا؛ ایسی مصنوعات بنا رہا تھا جس کی اسے اجازت نہیں تھی؛ زمینی پانی کو آرسینک، سیسے، سیلینیم، ایلومینیم اور تانبے سے آلودہ کر دیا؛ آن لائن نگرانی کے نظام سے ممکنہ چھیڑ چھاڑ کی؛ اور کئی گیسوں کے اخراج کا باعث بنا۔ ماحولیاتی اثرات پر کی گئی یہ تحقیق مدراس ہائی کورٹ میں پیش کی گئی جس کے نتیجے میں پلانٹ بند ہو گیا، مگر بعد میں NEERI نے اسے کام کرنے کی اجازت دے دی۔حالیہ مظاہروں کی وجہسٹرلائٹ کمپنی اپنے پلانٹ کے حجم میں اضافہ کرتے ہوئے تانبے کی پیداوار 4 لاکھ ٹن تک لیجانا چاہتی ہے۔ 2010ء میں مدراس ہائی کورٹ نے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی بے ضابطگیوں کی وجہ سے مداخلت کی، مگر اس حکم کو سپریم کورٹ کی طرف سے ختم کرتے ہوئے 10 ارب بھارتی روپے کا جرمانہ عائد کر دیا گیا۔ پلانٹ کو اس بنیاد پر کام کرنے کے اجازت دے دی گئی کہ اس سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور یہ تانبے کی پیداوار میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ سٹرلائٹ نے تامل ناڈو کے انسدادِ آلودگی کے محکمے سے اپنے لائسنس کی تجدید اور پیداوار میں اضافے کے لیے رجوع کیا ہے۔ ابھی تک یہ درخواست زیر التوا ہے۔ ایک ایسے پلانٹ کے پھیلاؤ کی درخواست جس نے پہلے ہی ماحول کو برباد کر دیا اور لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا، جو نئے مظاہروں کے آغاز کا باعث بنا۔کماراتیپورم گاؤں کے باسیوں نے اس پلانٹ کو بند کرنے کے لیے احتجاج شروع کر دیا، جن کے پانی کے ذخائر اس سے نکلنے والی کثافت سے آلودہ ہو گئے تھے۔ مارچ 2018ء میں پر امن احتجاج 50ہزار لوگوں کے اجتماع میں تبدیل ہو گیا۔ 22 مئی 2018ء کو احتجاج کے سوویں دن لوگوں نے سٹرلائٹ پلانٹ کے پاس احتجاج کرنا چاہا مگر انتظامیہ نے اجازت نہ دی۔ انتظامیہ کی اس حرکت کے خلاف احتجاج کے منتظمین نے سٹرلائٹ پلانٹ اور کلیکٹر آفس کے آگے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔22 مئی کو مظاہرین صبح 10 بجے اولڈ مدر لیڈی چرچ کے سامنے اکٹھے ہوئے اور ٹوٹیکورن میں ڈسٹرکٹ کلیکٹر آفس کی جانب بڑھنے لگے۔ 20ہزار مظاہرین تعداد میں تمام پولیس سے زیادہ تھے اور پولیس چوکیوں سے پیدل مارچ کرتے ہوئے گزرتے گئے۔سٹرلائٹ مخالف مظاہرین کا قتلِ عامپولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا مگر مظاہرین پرامن طریقے سے آگے بڑھتے رہے۔ لیکن انتظامیہ نے تامل ناڈو پولیس سٹینڈنگ آڈرز (PSO) کی پاسداری نہیں کی، جس کے مطابق گولی چلانے کا حکم تب تک نہیں دیا جا سکتا جب تک ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پہلے آنسو گیس اور پھر واٹر کینن کا استعمال نہ کر لیا جائے۔ اور اس کے بعد آخری چتاونی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی صرف گھٹنوں سے نیچے نیچے گولی چلانے کی اجازت ہے۔ان میں سے کسی بھی اصول پر عمل نہیں کیا گیا اور خبروں میں چلنے والی ویڈیو میں پولیس کو چِلاتے سنا جا سکتا ہے: ’’مظاہرین میں سے کم از کم ایک تو ضرور مرے‘‘۔ وہاں سنائپرز کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔ ویڈیو میں ایک وین پر پولیس آفیسر صاف دکھائی دے رہے تھے جو مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کر رہے تھے۔ 10 کے قریب مظاہرین پہلے دن ہلاک ہوئے اور اگلے دن ایک ہسپتال میں احتجاج کے دوران کالیپن نامی ایک اور کمسن لڑکا مارا گیا۔ہلاک ہونے والوں میں سے دو، تاملاراسن اور جییارامن، اس انقلابی تنظیم کے کارکن تھے جو سٹرلائٹ مخالف احتجاج کی قیادت کر رہی ہے۔ ایک 17 سالہ لڑکی وینستا اور ایک اور خاتون بھی ماری گئی۔ پولیس کی اندھادھند فائرنگ سے 65 لوگ زخمی ہوئے۔ زخمیوں کے بیانات کے مطابق یہ یقینی طور پر انتظامیہ کی طرف سے سوچی سمجھی کاروائی تھی۔ اس کے علاوہ پولیس احتجاج کرنے والوں اور ان کے حمایتیوں کے گھروں تک جا کر انہیں دھمکاتی اور تشدد کرتی رہی۔پورے تامل ناڈو میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ CPM ،CPI اور CPI-ML جیسی بائیں بازو کی جماعتوں نے سرمایہ داروں کے منافعوں کی خاطر تامل ناڈو ریاست کے قتلِ عام کی شدید مذمت کی ہے۔ تامل ناڈو ریاست کی جانب سے تین اضلاع (ترنالولی، کنہیاکماری اور ٹوٹیکورن) میں عوامی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ میڈیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی بھی معطل ہے۔یکجہتی!تامل ناڈو ریاست کی حکومت، جس کی سربراہی ایدیپدی پالینسمے کر رہا ہے، مودی کی کٹھ پْتلی حکومت ہے۔ یہ دونوں صوبائی اور مرکزی حکومتیں اپنے کارپوریٹ (سرمایہ دار) آقاؤں کی خاطر انتھک کام کر رہے ہیں۔ تامل ناڈو میں AIADMK پارٹی مرکزی حکومت کے رحم و کرم پر ہے۔ کانگرس سے لے کر BJP تک تمام حکمران جماعتوں نے ویدانتا کے بیرونِ ملک سے آنے والے مال سے فائدہ اٹھایا ہے۔ 2015ء میں دہلی ہائیکورٹ میں 10 پیشیوں کے بعد یہ جماعتیں غیر ملکی چندے کی ریگولیشن کے ایکٹ (FCRA) کے تحت بیرون ملک سے پیسہ لینے کی خطا وار پائی گئیں۔ ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو ان جماعتوں کے خلاف عوامی نمائیندگی ایکٹ کے تحت کاروائی کرنے کا حکم دیا۔ 2018ء میں FCRA میں ترمیم کی گئی جس میں سٹرلائٹ جیسی کمپنیوں کو ذیلی کمپنیاں ہونے کی بنا پر چھوٹ دے دی گئی۔ اب غیر ملکی کمپنیاں انڈیا میں اپنی ذیلی کمپنیوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو چندہ دے سکتی ہیں۔ 2018ء کے بجٹ میں غیر ملکی چندے کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ کانگرس اور BJP نے مل کر 2015ء کے دہلی ہائیکورٹ کے فیصلے سے بچنے کی خاطر یہ ایکٹ پاس کروایا ہے۔ ان جماعتوں نے ویدانتا سے کروڑوں روپے وصول کیے ہیں۔جنوبی تامل ناڈو وہ جگہ ہے جہاں کے لوگ جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ کے وارث ہیں، جس میں جنگ آزادی کی جدوجہد بھی شامل ہے۔ یہ علاقہ زیادہ تر محنت کشوں کی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ تامل ناڈو میں انڈیا کے سب سے زیادہ احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، صرف سال 2017ء میں 20ہزار کے قریب۔ سٹرلائٹ پلانٹ کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ یہاں تک کہ لندن میں ویدانتا کے دفاتر کے سامنے بھی ایک مظاہرہ ہوا۔ سرمایہ داروں اور ان کی حکومت کے خلاف جدوجہد صرف اور صرف پورے تامل ناڈو، پورے ہندوستان اور پوری دنیا کے نوجوان اور محنت کشوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر یکجہتی کے ذریعے ہی جیتی جا سکتی ہے۔ ہر کہیں احتجاج اور مظاہروں کا آغاز ضروری ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ٹوٹیکورن کی عوام کو شکست نہ ہونے پائے۔