پشتون تحفظ تحریک: نئی سیاست کا جنم! Urdu Share Tweetپاکستان میں ایک نئی سیاست کا جنم ہو چکا ہے جبکہ پرانی سیاست بستر مرگ پر دم توڑرہی ہے۔ایک طویل عرصے سے یہاں کی سیاست میں صرف جھوٹ کا ہی بول بالا تھا۔ ٹی وی کے مذاکروں سے لے کر اخباروں کے کالموں تک، لیڈروں کی تقریروں سے لے کر بینروں اور پوسٹروں تک ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ تھا۔ہر لیڈر اور سیاسی پارٹی جلسوں اور جلوسوں میں ترقی اور خوشحالی لانے کے دعوے کرتی تھی لیکن عملی طور پر ان کی تمام تر سیاست مفاد پرستی، ٹھیکوں، رشوت خوری، کرپشن، بد عنوانی، فراڈ اور زیادہ سے زیادہ لوٹ مار پر مبنی تھی۔خواہ مذہب کے نام پر سیاست کی تجارت کرنے والی پارٹیاں ہوں یا قوم پرستی کے نام پر کاروبار چمکانے والی پارٹیاں،اسٹیبلشمنٹ کے وفادار اور پالتو سیاستدان ہوں یا مزدوروں کے نام پر ووٹ کھانے والی پارٹیاں ہر طرف ایک ہی اصول تھا کہ سیاست سب سے منافع بخش کاروبار ہے اور جو اس سے مفاد حاصل نہیں کرتا وہ بیوقوف ہے۔تمام سیاسی کارکنوں کو بھی یہی تربیت دی جا تی تھی اور انہیں بھی اپنے مفادات کے حصول کے لیے لیڈروں کے تلوے چاٹنے کی مشقیں کروائی جاتی تھیں۔ پارٹیوں کے لیڈر اپنے سے بڑے لیڈر یا پھر کسی جرنیل ، جج یا بیوروکریٹ کے سامنے یہی مشقیں دہراتے تھے جبکہ پاکستانی ریاست پر براجمان یہ حکمران سامراجی آقاؤں کے تلوے چاٹ کر اسی سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔[Source]اسی تمام تر غلاظت کے باعث عوام کی سیاست سے دلچسپی کم ہوتے ہوئے تقریباً ختم ہو کر رہ گئی تھی اور سیاسی جلسوں میں صرف کرائے پر ہی شرکا لائے جاتے تھے ۔ان جلسوں کا مقصد بھی عوام تک پارٹی کا پیغام پہنچانا نہیں بلکہ میڈیا میں تصویریں اور بیانات چھپوا کر اور کوریج کروا کر عوام پر اپنا رعب اور دبدبہ قائم رکھنا ہوتا تھا۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کے پاس عوام کو دینے کے لیے سیاسی پروگرام ہی نہیں رہ گیا اور سیاست صرف یہ ہے کہ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا دیے جائیں اور اسے کرپٹ، بد عنوان اور نا اہل ثابت کر دیا جائے تا کہ اگلی باری خود لینے کا موقع مل سکے۔اس مفاد پرستی کی سیاست میں اسٹییبلشمنٹ کا دلال بننے کو فخر سے پیش کیا جاتا ہے اور اپنے گرد ’’الیکشن جیتنے والے‘‘ حواریوں میں اضافے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے جبکہ چند دہائیاں قبل یہ’الزام ‘ بھی کلنک کا ٹیکہ ہوتا تھا۔صرف اسی ایک فرق سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست کی گرواٹ کس حد تک پہنچ چکی ہے اورنظریات سے کتنی عاری ہو گئی ہے۔اس دوران پشتون تحفظ تحریک کا ابھار گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ ایک لمبے عرصے بعد عوامی سیاست کے میدان میں سچ سننے کو مل رہا ہے۔اس ریاست کے تمام تر مظالم جن کے بارے میں اشاروں کنایوں میں بات کرنا بھی جرم تھا آج وہ ہزاروں کے مجمعوں میں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی فوج اور جرنیل جنہیں ایک مقدس ترین گائے بنا کر پیش کیا جاتا تھا آج ان کے فاٹا اور پشتونخواہ میں ڈھائے جانے والے مظالم کی کہانیاں کھل کر سنائی جا رہی ہیں۔ یہ کہانیاں سنانے والے پہلے بھی بہت تھے لیکن سننے کے لیے کبھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہوتے تھے۔ایک خوف تھا ، ڈر تھا ۔ اپنی زندگیاں بچانے کی خواہش تھی، پرانی سیاسی قیادتوں پر اعتماد تھا اور ان کی جھوٹی تسلیوں اور وعدوں پر یقین تھا ۔ اسی لیے لاکھوں لوگ ان مظالم کو برداشت کرتے چلے گئے۔ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی اندوہناک کہانیاں اپنے سینوں میں ہی دفن کرتے چلے گئے۔ اپنے آنسو، آہیں اور سسکیاں اندر ہی اندر پیتے چلے گئے۔ یہ آنسو خون کے آنسو تھے۔ ان مظالم میں ان کے قریب ترین عزیز و اقارب کی مسخ شدہ لاشیں تھیں، خون میں لتھڑے ہوئے جسم تھے، گولیوں سے چھلنی نعشیں تھیں اور بم دھماکوں میں بکھرنے والے جسموں کے ٹکرے تھے۔ہر آنے والا دن ظلم اور جبر کی ایک نئی داستان رقم کرتا تھا۔ لاکھوں لوگوں کو گھروں سے بے گھر کر دیا گیا، ان کے گھر مسمار کر دیے گئے ، ان کی زندگیاں ان سے چھین لی گئیں اور جو بچ گئے ان کے لیے زندگی ایک بوجھ بنا دی گئی ۔ ہر دن کا سورج معصوم بے گناہوں کے لہو سے تر ہو کر غروب ہوتا تھا اور ہر نیا دن خوف کے نئے سایے ساتھ لے کر آتا تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ تھا کہ اتنے بڑے سانحے کا مرثیہ خواں کوئی نہ تھا اور یہ تمام تر لوگ تاریک راہوں میں مر رہے تھے۔ ایک طرف جعلی فوجی آپریشنوں کا شور و غل تھا اور دوسری طرف طالبان کے نام پر وحشت اور بربریت کا ننگا نا چ تھا۔ایک طرف اسلحہ ساز فیکٹریوں کے منافعوں کو قائم رکھنے کے لیے سامراجی آقا کے ڈرون حملے تھے اور دوسری طرف سیاسی قیادتوں کی ننگی غداریاں تھیں جو سامراجی آقاؤں کے سامنے سر نگوں تھیں۔لاکھوں پشتونو ں پر ہونے والا یہ تمام تر جبر ان کے سینوں میں دفن تھا ۔آج جب کچھ سینے دنیا کے سامنے پھٹے ہیں تو لگتا ہے کہ وہاں ان کہانیوں کے وسیع و عریض قبرستان ہیں اور اب مردے قبروں سے نکل کر اپنے خون کا بدلہ لینے کے لیے آ رہے ہیں۔نقیب اللہ محسود کے قتل سے ابھرنے والی اس تحریک نے چند ماہ میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے اور بڑی تعداد اس کے جلسوں میں شرکت کر رہی ہے۔ ظلم اور جبر کی ان سچی کہانیوں کو سننے کے لیے ہر جگہ لوگ جوق در جوق جمع ہو جاتے ہیں اور پورے خلوص کے ساتھ تمام تقریروں کو سنتے ہیں۔ان جلسوں میں کسی کو کوئی ٹھیکہ ملنے کی امید نہیں ہوتی اور نہ ہی دیہاڑی پر لوگوں کو اکٹھا کر کے ان کی سیاسی امنگوں کا تماشا لگایا جاتا ہے۔ان تمام جلسوں میں شریک ہونے والے افراد درحقیقت ان تقریروں میں اپنے دکھوں کو تلاش کرتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی ہی بات کی جا رہی ہے۔تقریر کرنے والا انہیں کسی دوسری دنیا کا فرد نہیں لگتا جس کے ساتھ سینکڑوں باڈی گارڈ ہوں، بڑی بڑی گاڑیاں ہوں اور اسٹیج تک پہنچنا نا ممکن ہو۔بلکہ انہیں لگتا ہے کہ ان جیسا ہی ایک شخص اسٹیج پر کھڑا ہے جو ان سے ایسے واقعات بیان کر رہا ہے جیسے ان پر بیت چکے ہیں۔مقرر کے خلوص نیت ، ایمانداری، سچائی اور عاجزی کا اظہار اس کی شخصیت اور گفتگو میں بھی ہوتا ہے جو الفاظ میں ڈھل کر سننے والوں کے دلوں تک پہنچ کر ان پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور وہ بھی پورے خلوص نیت کے ساتھ اس تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں۔اس تحریک کا حجم تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جو حکمرانوں کے ایوانوں میں خوف پیدا کر رہا ہے۔شروع میں اس کو نظر انداز کر کے اس کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔حکمران اور ان کے نظریات پر یقین رکھنے والوں کے لیے میڈیا لا امتناعی طاقت کا مالک ہے ۔ اور اگر میڈیا پر کوئی تحریک نہیں دکھائی جائے گی تو وہ ناکام ہو جائے گی جبکہ جو تحریک صرف میڈیا پر موجود ہو اور زمین پر اس کا وجود بھی نہ تب بھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ دنیا میں آج بھی تمام تر تحریکیں اور انقلابات میڈیا اور اس کی سرپرست ریاست اور حکمران طبقے کے خلاف ہی ابھرتے ہیں۔اور جب میڈیا اور سوشل میڈیا نہیں تھے اس وقت بھی تحریکیں اور انقلابات برپا ہوتے تھے۔تحریکیں اور انقلابات میڈیاکے باعث نہیں بنتے اور بگڑتے بلکہ کسی بھی سماج کے ٹھوس مادی حالات ہوتے ہیں جن میں پنپنے والے تضادات تحریکوں اور انقلابات کا باعث بنتے ہیں۔پشتون تحفظ تحریک میں ہمیں یہ ایک دفعہ پھر واضح طور پر نظر آیا ہے۔فوج کے جعلی آپریشنوں کو جس طرح میڈیا میں حقیقی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔طالبان اور فوج کے درمیان جاری بلی چوہے کے کھیل سے متاثرہ علاقوں کے تمام افراداس فریب سے بخوبی واقف تھے اور ان کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔لیکن ملک کے دیگر علاقوں اور عالمی سطح پر غلام میڈیا کے ذریعے پراپیگنڈا کر کے سچ کا گلا گھونٹ دیا گیا اور سچی خبر کو باہر آنے ہی نہیں دیا گیا۔اس پر حکمران خوش ہوتے رہے کہ ہم عوام کو الو بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس کام کے سامراجی آقاؤں سے خوب پیسے بھی بٹور لیے ہیں۔مارکسی قوتیں اس دوران بھی سچ لکھتی رہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں حقائق پہنچاتی رہیں لیکن مزدور تحریک کے عمومی زوال کے باعث ان کی آواز عوام کے بڑے حصوں تک نہیں پہنچ سکیں۔لیکن اس دوران ان کا ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کا تجزیہ و تناظر درست ثابت ہوتا رہا۔اس تمام تر عمل میں قالین کے نیچے چھپائے جانے والے جرائم ایک کینسر کی شکل اختیار کرتے گئے جو ریاست کی رگ رگ میں سرایت کر گیا۔ریاستی اداروں کے جبر کو قائم رکھنے والے اہلکاروں نے یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا کہ ان کے جرائم کا کوئی حساب بھی لے سکتا ہے۔ وہ اپنی فرعونیت میں اتنے غرق ہو چکے تھے کہ انہیں عوام کا غیض و غضب کوئی ماضی کا قصہ لگتا تھا۔ ان کے نزدیک ان لاکھوں لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے وہ خود ہیں اور جس کو چاہیں گے زندگی دیں اور جسے چاہیں گے موت۔میڈیا، سیاسی پارٹیاں، ملاؤں کے فتوے سب کچھ ان کی جیب میں تھا۔لیکن دوسری جانب اس تعفن کے خلاف عوام کا غم و غصہ بھی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔نقیب اللہ محسود کے قتل پر یہ تمام تر لاوا ایک آتش فشاں کی شکل میں پھٹ کر باہر آ گیا اور ریاستی اداروں کے مظالم کیخلاف عوامی بغاوت کا آغاز ہو گیا۔جب اسلام آباد دھرنے کا آغاز ہوا اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ تحریک چند ماہ میں ملک کے طول و عرض میں پھیل جائے گی۔محسود تحفظ تحریک سے یہ چند ہفتوں میں پشتون تحفظ تحریک بن گئی اور منظور پشتین اس تحریک کا لیڈر بن کر ابھرا۔ دھرنے کے آغاز پر صرف انقلابی طلبہ اور متاثرہ افراد ہی تقریریں کر رہے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ موقع پرست عناصر بھی وہاں پہنچ گئے اور اپنی سیاست چمکانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ دھرنے کے آخری دنوں میں روایتی سیاست پر براجمان ملاؤں اور قوم پرست لیڈروں نے بھی دھرنے سے خطاب کیااور اسی غلیظ سیاست کو دوبارہ اس نئی تحریک پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔اس کی بنیادی وجہ اس تحریک کا کردار ہے جو رائج الوقت تمام دیگر پارٹیوں کی سیاست سے بالکل مختلف ہے۔اس تحریک میں شامل ہونے والے افراد اس گھٹن زدہ سماج کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں جن پر ان سیاسی پارٹیوں کی حکمرانی ہے۔ جہاں یہ افراد فوج کے مظالم کیخلاف بغاوت کر رہے ہیں وہاں مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، لاعلاجی اور ناخواندگی کے خلاف ان کا غم و غصہ بھی اس تمام تر احتجاجوں میں شامل ہے۔اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی میں ان مسائل پر احتجاج کرنا تو دور بات تک نہیں کی جا سکتی۔ ان پارٹیوں میں صرف زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگتے ہیں۔لیڈر سے سوال کرنے یا اس پر تنقید کرنے کو بد ترین گناہ تصور کیا جاتا ہے۔کسی سنجیدہ ایشو پر بحث کرنا یا کسی سیاسی یا معاشی مسئلے کا تنقیدی جائزہ لینا شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔درحقیقت تمام پارٹیاں لیڈروں کے نجی کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں جو باپ سے بچوں کو منتقل ہوتا ہے اور دیگر لوگ اس میں ملازم کی حیثیت سے آ اور جا سکتے ہیں۔ایسے میں ایک متوازی سیاسی تحریک کا ابھرنا ناگزیر تھا جہاں عوام اپنے غم و غصے کا کھل کر اظہار کر سکیں اور ریاست کے جبر کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں ، قیادتوں اور ریاست کے تمام اداروں پر تنقید کرتے ہوئے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں۔پشتون تحفظ تحریک درحقیقت ایسا ہی ایک پلیٹ فارم بن کر ابھری ہے۔اس تحریک کے بلند شعور کا اظہار اس کے عمل میں ہوتا ہے۔اسلام آباد میں جاری دھرنے میں دس سے بیس ہزار افراد وہاں کئی دن تک مسلسل موجود رہے لیکن ایک بھی گاڑی کا شیشہ نہیں ٹوٹا اور نہ ہی جلاؤ گھیراؤ کیا گیا۔ ابھی تک پوری تحریک مکمل طور پر سیاسی انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور کہیں بھی غنڈہ گردی کا شائبہ تک نہیں ملتا۔جو لوگ ریاست کے بد ترین جبر اور وحشت و بربریت کی انتہاؤں تک پہنچے ہوئے مظالم کیخلاف احتجاج کر رہے ہوں اور جن کی اکثریت قبائلی علاقوں سے آنے والے افراد پر مبنی ہو ان سے اتنے بلند ڈسپلن اور سیاسی شعور کی توقع کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن اس تحریک نے جدید ترین شہروں میں رہنے والوں اور جدیدیت کے دعویداروں کے پست شعورکو بھی عیاں کیا ہے۔اسلام آباد میں حالیہ عرصے میں ہونے والا یہ کوئی پہلا دھرنا نہیں تھا۔ بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے دھرنے ہوئے ہیں جن میں ان سے کم افراد کے ساتھ پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی، سپریم کورٹ پر شلواریں سکھائی گئیں اور پولیس کے ساتھ دوستانہ دھینگا مشتی میں عام کارکنوں کی بلی چڑھا دی گئی۔اسی طرح صرف چند ماہ قبل چند درجن افراد نے فیض آباد پر دھرنا دے کر دو شہروں کو یرغمال بنا لیا۔ جنہیں ایک طرف جرنیل ہزا ر ہزار روپے کے نوٹ تقسیم کر رہے تھے اور دوسری طرف وہ پولیس سے لڑائی کا ناٹک کر رہے تھے۔ اس ناٹک کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے چند غریب افراد کی لاشیں بھی بچھا دی گئیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس تمام تر تماشے کے متوازی پشتون تحفظ تحریک کا دھرنا نئی سیاست کی مختلف بنیادوں اور کردار کو واضح کرتا ہے۔جلاؤ گھیراؤ، خونریزی اور دھینگا مشتی کسی تحریک کی طاقت کی نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہے۔ دوسری طرف ریاست کے اداروں کا بڑھتا ہوا جبر، آنسو گیس اور شیلنگ بھی اس ریاست کی طاقت کی نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہوتا ہے۔جبکہ پشتون تحفظ تحریک کا ڈسپلن اس کی طاقت کا اظہار ہے۔لیکن اپنی تمام تر خوبیوں اور کامیابیوں کے باوجود یہ تحریک خامیوں سے خالی نہیں اور اسے مزید مضبوط کرنے کے لیے اور اس کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ان خامیوں کو دور کرنا ہو گا۔اس لیے اس تحریک اور اس سے جڑے تمام افراد کو نہ صرف خود اپنا تنقیدی جائزہ لینا ہو گا بلکہ تنقید کرنے والے دوسرے افراد کا بھی خیر مقدم کرنا ہو گا۔ لیکن تحریک کو مضبوط کرنے والی تنقید اور دشمنوں کے حملوں میں فرق کرنا بھی ضروری ہے۔ایک طرف حکمران طبقہ ہے ، میڈیا میں بیٹھے اس کے دلال ہیں، اس تحریک سے خوفزدہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے گماشتے ہیں وہ سب بھی اس تحریک پر حملے کر رہے ہیں۔ کچھ کھل کر اور کچھ دوست کا بہروپ اختیار کر کے میٹھی چھری چلائیں گے۔لیکن دوسری طرف اس تحریک کے کارکنان اور خیر خواہ ہیں جو انتہائی تیز دھار تنقید سے سرجری کی کوشش کریں گے۔ ان میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔دوست بن کر نقصان پہنچانے والے تحریک کی خامیوں کو اجاگر کر کے خوبیوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں گے اور حقیقی ہمدرد خوبیوں کو سراہتے ہوئے اس کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہ ایک ناگزیر عمل ہے اور اس سے گزرے بغیر تحریک اگلے مرحلے میں داخل نہیں ہو سکتی۔اس وقت تحریک کی کوئی واضح نظریاتی بنیادیں نہیں ہیں اور اس میں مختلف نظریات کے لوگ شامل ہیں۔ پشتون قوم پرست پارٹیوں کی بد ترین غداری کے باعث ان پارٹیوں کے کارکنان کی بڑی تعداد بھی اس تحریک میں شامل ہے جس کی وجہ سے اس پر بعض اوقات قوم پرستی کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔لیکن ژوب میں جلسے کے دوران منظور پشتین نے واضح کیا کہ ان کی لڑائی قومی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف ہے۔ اسی طرح کوئٹہ میں ہونے والے جلسے میں ہزارہ اور بلوچوں کی شرکت واضح کرتی ہے کہ دیگر مظلوم قومیتیں بھی اس تحریک کو امید کی نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔بلوچوں کے خلاف بھی بد ترین فوجی آپریشن ایک لمبے عرصے سے جاری ہیں اور فوج کے مظالم کے قصے ان کے لیے اجنبی نہیں۔اسی طرح ہزارہ کی جس طرح نسل کشی کی جارہی ہے اور ریاستی سر پرستی میں جس طرح مذہبی جنونی ان کا وقتاً فوقتاً قتل عام کرتے ہیں ایسے میں ان کے لیے اس مذہبی جنونیت اور ریاستی اداروں کی ملی بھگت کی کہانی نئی نہیں۔ ملک کی دیگر مظلوم قومیتوں کے دکھ بھی ملتے جلتے ہیں اور وہ اس تحریک کا حصہ بن کر اس کو مزید وسعت دینے کے لیے بیتاب ہیں۔اس تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے انتہائی ضروری بھی ہے کہ ان تمام افراد کو اس کا فوری طور پر حصہ بنایا جائے۔گزشتہ عرصے میں جہاں اس ریاست کے قومی جبر میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے وہاں معاشی جبر اور استحصال بھی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ اس کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر تحریکیں پورے ملک میں موجود ہیں۔پشتونخواہ میں اساتذہ کے احتجاج سے لے کر کوئٹہ میں پیرا میڈیکس اور پی ڈبلیو ڈی کے محنت کشوں کے احتجاج تک، پی آئی اے کی ہڑتا ل سے لے اسٹیل مل اور ریلوے کے احتجاجی مظاہروں تک، یونی لیور، کوکا کولا، پیپسی اور نیسلے جیسے اداروں کے محنت کشوں کی ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں سے لے کر نرسوں، ینگ ڈاکٹروں اور کسانوں کے احتجاج تک پورے ملک میں اس ریاست کے جبر کیخلاف احتجاج جاری ہیں۔یہ تمام افراد بھی اس تحریک کے فطری اتحادی ہیں اور اس تحریک کے مطالبات کی پر زور حمایت کریں گے۔ان تمام شعبوں کی حمایت سے یہ تحریک مزید مضبوط بھی ہو گی اور اس کی آواز بھی ملک کے کونے کونے تک پھیل سکے گی۔فاٹا کے دور افتادہ علاقوں میں ہونے والے مظالم کی جو خبریں بکاؤ میڈیانے بے دردی سے کچلی ہیں وہ ان تحریکوں کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے ہر محنت کش تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔اگر یہ تحریک اتنے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نہ صرف اس کے حالیہ مطالبات یقینی طور پر تسلیم کر لیے جائیں گے بلکہ اسے زیادہ وسیع اور بڑے مطالبات کی جانب تیزی سے بڑھنا ہو گا جن میں علاج اور تعلیم کی معیاری اور مفت فراہمی سے لے کر بیروزگاری کے خاتمے تک کے مطالبات شامل ہیں۔اس مقصد کے حصول کے لیے اس تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور تنگ نظر قوم پرستی کے حملوں کو شکست دیتے ہوئے اسے محنت کش طبقے کے وسیع تر مطالبات کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے حصول میں جہاں حکمران طبقے کے گماشتے اسے روکنے کی کوشش کریں گے اور اس کو اپنے ابتدائی مطالبات تک محدود رکھنے کی کوشش کریں گے وہاں تنگ نظر قوم پرست بھی اپنی دکانداری چمکانے کے لیے اس تحریک کو محنت کشوں سے دور رکھنے کی ہر ممکن سعی کریں گے۔ان کے نزدیک یہ ایک نئی قوم پرست پارٹی کا آغاز ہے جس میں وہ جلدی جلدی اہم عہدے پر پہنچ کر لیڈری کا شوق پورا کر سکتے ہیں جو دوسری پارٹیوں میں نہیں کر سکے۔ ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے خواب سجائے یہ لوگ اس تحریک کو اپنے معمولی سے مفاد کے لیے بیچنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔ان عزائم کو پورا کرنے کے لیے وہ قوم پرستی کا پرانا چورن بیچنا بھی جاری رکھیں گے جس کی تنخواہ انہیں ماضی میں بھی ملتی رہی ہے۔ لیکن آج کے عہد میں جہاں قومی جبر میں شدت آئی ہے وہاں قوم پرستی کی پرانی بنیادیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ اس لیے ان کے پرانے رٹے رٹائے جملے اور تقریریں ناکارہ ہو چکی ہیں کیونکہ ان کاسماجی حالات سے کوئی ربط نہیں۔اس کے علاوہ عوام کی وسیع پرتوں تک جانے کے لیے پرانی پارٹیوں کو ذریعہ بنانے کا لگا بندھا فارمولا مسلط کیا جائے گا۔اس وقت اس تحریک کی سب سے بڑی خامی بھی یہی ہے کہ اس میں ہر سیاسی پارٹی کے لیڈران کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور انہیں اپنی گھناؤنی سیاست چمکانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔اس تحریک کا ابھار ان تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف ایک بغاوت کی شکل میں ہوا ہے اور اس تحریک میں شامل ہو کر عوام نے رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں ،جن میں جمعیت علمائے اسلام کے تمام گروپ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت تمام قوم پرست پارٹیاں شامل ہیں، کو رد کر کے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی ہے۔اگر عوام نے انہی لیڈروں کو سننا ہوتا اور انہی پارٹیوں سے امید ہوتی تو وہ اس تحریک کا کبھی بھی حصہ نہ بنتے اور نہ اس تحریک کی نوجوان قیادت کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ۔ اس لیے اس تحریک کو ان تمام عوام دشمن پارٹیوں کو سختی سے رد کرنا ہوگا اور ان کی منظم شمولیت پر پابندی عائد کرنا ہوگی۔یہ پارٹیاں عوام کے کسی بھی حصے کی نمائندگی نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے ذریعے عوام کی وسیع پرتوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ بلکہ یہ پارٹیاں عوامی تحریک کی راہ میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور یہ تحریک اگر اس رکاوٹ کو عبور نہیں کرتی تو اسی دلدل میں دھنس جائے گی۔عوام کی وسیع پرتوں تک پہنچنے کے لیے سرکاری و نجی اداروں کے محنت کش، تعلیمی اداروں کے طلبہ ، احتجاجوں میں شریک ہونے والے ہزاروں کسان اور قومی جبر کا شکار دیگر مظلوم قومیتوں کے لاکھوں افراد ہیں۔اس وقت گلگت بلتستان سے لے کر تھرپارکر تک درجنوں احتجاجی تحریکیں جاری ہیں جو اپنے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ان کو ساتھ جوڑنے کے لیے ان کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان پر ریاستی جبر کی شدید مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔انہی بنیادوں پر یہ تحریک ملک بھر کے ظلم اور استحصال کا شکار افراد کی حقیقی آواز بن سکتی ہے اور آگے کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہے۔لیکن یہ تمام تر عمل اس تحریک میں ناگزیر طور پر نظریاتی بحثوں کے آغاز کا باعث بنے گا۔کچھ لوگوں کے خیال میں یہاں ہر قسم کے نظریے کے افراد کو آنا چاہیے ورنہ تحریک میں شامل افراد کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کی مقبولیت کی وجہ اس میں شامل افراد کی مقدار نہیں بلکہ اس کا مؤقف بنا تھا جس میں قیادت نے ریاستی اداروں پر بغیر کسی خوف کے کھل کر تنقید کی تھی۔لیکن اب اس سے اگلے مرحلے میں زیادہ ٹھوس لائحہ عمل کی جانب بڑھنا پڑے گا اور تحریک کو ایک واضح سمت اختیار کرنا ہوگی ورنہ مختلف سمتوں میں ایک ہی وقت میں سفر کرنے کی کوشش مہلک ہو سکتی ہے۔تحریک میں پیدا ہونے والے نظریاتی اختلافات کو نظر اندازکرنا بھی بہت بڑی غلطی ہو گی اور تحریک کو کمزور کرے گی۔اب تک اس تحریک کا بنیادی مطالبہ راؤ انوار کی پھانسی ، چیک پوسٹوں اور فوجی آپریشنوں کا خاتمہ ہے۔تحریک کے قائدین کے مطابق وہ یہ تمام مطالبات آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے کوئی عزائم نہیں۔لیکن اگر اس ریاست اور اس کے اداروں کا سائنسی تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آخری تجزیے میں ریاست جبر کا ایک آلہ ہے جو حکمران طبقہ اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔پاکستان میں آج بھی انگریز سامراج کا بنایا ہواقانون نافذ ہے جس کا مقصد یہاں کے عوام کو غلام بنانا تھا۔یہاں کا آئین ، عدالتیں، پولیس، فوج اور دیگر تمام ریاستی ادارے حکمران طبقے کی لونڈی کا کردار ادا کرتے ہیں جن کا مقصد یہاں کے محنت کش طبقے کا استحصال کرنا اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کرنا ہے۔یہ ریاست عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے نہیں اور نہ ہی اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ انہیں بنیادی ضروریات مہیا کر سکے ۔ یہ ریاست اپنے جنم سے ہی سامراجی طاقتوں کی گماشتہ ہے جس نے افغانستان سمیت پورے خطے میں ان طاقتوں کی گماشتگی کا فریضہ نبھایا ہے۔ اب تو یہ حکمران جن میں وزیر خارجہ، آرمی چیف و دیگر شامل ہیں،خود بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ امریکی سامراج کی دلالی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اس کی پوری فیس وصول کی ہے۔اس دوران مرنے والے لاکھوں لوگوں کو محض ایک معمولی غلطی کہہ کر اپنا فرض ادا کر دیا گیا ہے۔کرائے کی اس ریاست کے یہ گماشتہ حکمران کچھ عرصے بعد طالبان کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کوبھی ایسے ہی تسلیم کر لیں گے اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر کسی نئی سامراجی طاقت کے تلوے چاٹنے لگیں گے۔ان سے انصاف کی توقع کرنا بالکل بھی دانشمندی نہیں ہے۔پشتون تحفظ تحریک کے مطالبات اور فاٹا اور پشتونخوا کے تمام متاثرہ افراد کے مسائل کا حل اسی وقت ممکن ہے جب اس خونی ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ ایک مزدور ریاست کو تعمیر کیا جائے جس میں نجی ملکیت اور سرمائے کی حاکمیت کے نظام کا خاتمہ کیا جا ئے۔ جس میں امیر اور غریب کے صدیوں پرانے طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور تمام صنعت، معیشت، تجارت اور معدنی وسائل پر محنت کش عوام کا مشترکہ جمہوری کنٹرول ہو۔یہ سب کچھ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے اور صرف اسی کے ذریعے لاکھوں متاثرہ پشتونوں سمیت ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، مفت علاج و تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کی جا سکتی ہے۔یہی اس تحریک کی حقیقی منزل ہے ۔ اگر اس کی قیادت اس رستے سے بھٹکے گی تو اس سے بھی زیادہ جرات مند اور دلیر قیادت اس سے بھی بڑی اور وسیع تحریک کے ذریعے اس کارواں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے ابھرے گی۔ اگر نظریاتی پختگی ، سائنسی نظریات اور انقلابی جوش و جذبہ موجود ہوا تو کسی بھی قسم کا ریاستی جبر، تشدد، ،دشمنوں کے حملے اور اپنوں کی غداریاں اس کاروان کا رستہ نہیں روک سکیں گے اور یہ منزل پر پہنچ کر ہی دم لے گا۔