عفرین میں کردوں کو کچلنے کے لئے ترکی اور ’’عالمی برادری‘‘ کا گٹھ جوڑ Urdu Share Tweetاتوار کے دن ترک فوجوں نے نام نہاد شامی باغی دستوں کی مدد سے شمال مشرقی شام کے کرد اکثریتی شہر عفرین پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران جب مغربی میڈیا دمشق کے مضافاتی شہر غوطہ میں بشارالاسد حکومت کی اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف جارحیت کی مذمت کرنے میں مصروف تھا، کسی نے کردوں کی خلاف اس وحشیانہ کارروائی پر کوئی توجہ نہیں دی جنہوں نے ترکی پر کبھی حملہ نہیں کیا۔[Source]عفرین پر قبضے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنی تقریر میں کہا:’’عفرین شہر کے مرکز میں اب امن و آشتی کا پرچم لہرا رہا ہے نا کہ دہشت گرد تنظیموں کے چیتھڑے۔ زیادہ تر دہشت گرد دم دبا کر بھاگ چکے ہیں۔ ہمارے سپیشل یونٹس اور آزاد شامی فوج(Free Syrian Army) ان قوتوں کی باقیات کو صاف کرنے میں لگے ہیں۔‘‘عفرین کے ترک قبضے میں جانے سے لے کر اب تک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شہر کو کنٹرول کرنے والی ان قابض افواج کا امن سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ کرد مسلح افواج کے انخلا کے بعد منظر عام پر آنے والی تصویروں میں نظر آتا ہے کہ فوجی عمارتوں پر ترکی کے جھنڈے لہرا رہے ہیں اور ’’باغی‘‘ کردوں کے ایک دیومالائی انقلابی ہیرو ’کاوا حداد‘ کا مجسمہ گرا رہے ہیں۔ مگر کرد جدوجہد کی اس علامت کی تباہی سے بڑھ کر، جس پر زیادہ تر مغربی میڈیا توجہ دے رہا ہے، عام شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔شہر سے بھاگنے والے عینی شاہدین کے مطابق عام شہریوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور نقاب کے بغیر عورتوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز گردش میں ہیں جن میں ترک حمایت یافتہ فوجیں شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں اور انہیں ’’سور‘‘ اور اس سے بھی گھٹیا الفاظ سے پکار رہی ہیں۔ اسی طرح کی دوسری ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں ملیشیا کے لوگ ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے کرد فوجیوں کی لاشوں کو مار پیٹ رہے تھے اور ان کی بے حرمتی کر رہے تھے، ساتھ میں ان کے لیے انتہائی غلیظ زبان استعمال کر رہے تھے۔ عفرین پر قبضے کے بعد ایسی لاتعداد تصاویر نشر کی گئیں جن میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو گھروں اور دوکانوں میں زبردستی گھس کر کھانا، کمبل، ساز و سامان اور جو کچھ بھی وہ لوٹ سکتے تھے لوٹ رہے تھے اور ساتھ میں کیمرے کے سامنے بڑے فخریہ انداز میں ایک انگلی والے جہادی سلیوٹ کے ساتھ مسکرا رہے تھے۔ یہ ’’آزاد‘‘ مغربی میڈیا کے ’’پیشہ وارانہ‘‘ کرتوت ہیں کہ ان باؤلے سلفی جہادیوں کی تصویروں کو ’’حریت پسند شامی باغی‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے آزاد شامی فوج(Free Syrian Army) ایک باریک نقاب کا کام کررہی ہے جس کے پیچھے سارے رجعتی اسلامی مسلح گروہ چھپے ہوئے ہیں۔ ترکی کے لیے لڑنے والی یہ کرائے کی فوجیں بھی ان سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ان میں رنگ برنگے جہادی شامل ہیں، خاص طور پر داعش اور القاعدہ کے سابقہ جنگجو جو ترکی کی کرائے کی فوج کے لیے پہلی ترجیح ہیں۔ یہ قوتیں عفرین میں اپنے حصے کے گھناؤنے کام سرانجام دے رہے ہیں۔ اور بلاشبہ انہیں ترک ٹینکوں، لڑاکوں، ہیلی کاپٹروں، اور ترکی سے بھرتی کیے ہوئے نیم فسطائی قوم پرست دستوں کی بھی مدد حاصل ہے۔ یہ نام نہاد ’’امن پسند‘‘ بھائیوں کا ٹولہ نہتے کرد شہریوں پر بلا امتیاز بمباری کر رہا ہے(جس میں نیپام بم بھی شامل ہیں)، ان کے گھروں، سڑکوں اور یہاں تک کہ خوراک اور ادویات لیجانے والے قافلوں پر بھی۔اس کے باوجود مغربی میڈیا پوری وفاداری سے ترکی کا ہی بیانیہ پیش کر رہا ہے، سوائے کچھ بے معنی تحفظات کے۔ مغربی طاقتوں کا طرز عمل بالکل اس شور شرابے کے متضاد دکھائی دیتا ہے جو وہ بشارالاسد کی حکومت کے مشرقی غوطہ پر حملے کے خلاف کر رہے تھے، دمشق کا وہ مضافاتی علاقہ جو اسلامی رجعت پرستوں کے قبضے میں ہے جنہوں نے کئی مرتبہ دمشق پر بلا امتیاز بمباری کی ہے۔عفرین پر حملے کے متعلق سوال پر امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے محض اتنا ہی کہا:’’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ آپریشن جلد مکمل ہو جائے گا اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ترکی کی پوری کوشش ہے کہ کم سے کم شہریوں کا جانی نقصان ہو۔ ہمیں اس ضمن میں ان کی کوششوں پر کوئی شک نہیں ہے۔‘‘اس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ ترکی کی جلد از جلد فتح کی امید کر رہا ہے، نا کہ کردوں کی، جو بظاہر اس کے اتحادی تھے۔ اس پورے حملے کے دوران امریکی اہلکار انتہائی خود غرضی کے ساتھ یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ عفرین میں کردوں کا ساتھ نہیں دیں گے، کیونکہ عفرین کے ساتھ ان کے کوئی عملی مفادات نہیں جڑے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ترکی کو حق ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی خواہش رکھے۔‘‘ اسی دوران جرمنی ترکی کو جدید ہتھیاروں کی ترسیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مغرب میں کچھ لوگ اسلامی انتہاپسند وحشیوں کی مچائی جانے والی لوٹ مار پر مگرمچھ کے آنسو بھی بہا رہے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی سامراج نے ترکی کی جارحیت کا مکمل ساتھ دیا ہے۔اسلامی انتہا پسندی کو شکست دینے کی باتوں کے باوجود مغربی طاقتیں اور ان کے خلیجی اتحادی جہادیوں کے سب سے بڑے سہولت کار رہے ہیں اور یہاں تک کہ اب وہ ان کے بچے کھچے چیتھڑوں سے بنی کرائے کی فوج، جو القاعدہ اور داعش کے سابق جنگجوؤں پر مشتمل ہے، کا داعش کے خلاف زمین پر لڑنے والی واحد پر اثر قوت کے خلاف ساتھ دے رہے ہیں۔اسی دوران روس کا طرز عمل بھی مغربی سامراجیوں سے کچھ خاص مختلف نہیں ہے، اس نے عفرین سے اپنی تمام ’’امن فوجیں‘‘ ہٹا کر حملے کی راہ ہموار کی اور فضائی حدود بھی ترکی کے استعمال کے لیے خالی کر دیں، جبکہ ایران اور بشارالاسد حکومت نے بھی چار و ناچار اس حملے کو قبول کر لیا۔ ایک طرف تو روس ترکی کو امریکہ کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کا اتحادی ایران شام کی سرزمین پر زیادہ مضبوط ہو۔ شام میں بڑی زمینی فوج نہ ہونے کی وجہ سے روس باقی قوتوں میں توازن قائم کرنے کا خواہشمند ہے تاکہ وہ کسی بھی پلڑے میں وزن ڈالتے ہوئے اپنے مفادات حاصل کر سکے۔ایرانی حمایت یافتہ قوتوں نے کردوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے علامتی طور پر چند سو شیعہ ملیشیا کے افراد بھیجے ہیں مگر جہاں ایران، شام میں اردگان کی طاقت کو بڑھنے سے روکنا چاہتا ہے، وہیں ایرانی حکومت کردوں کی آزادی کو بھی ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے کیونکہ اس سے مستقبل میں ایرانی کردوں کو بھی پریرنا مل سکتی ہے۔ ایران اور ترکی مغربی شام کے حصے بخرے کر کے بعد از جنگ شام میں ان پر اپنی جاگیروں کی طرح قبضہ جمانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس مساوات میں کردوں کی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔بشارالاسد کی بات کی جائے تو وہ اس موقع پر اپنے اتحادیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اور ان معاملات میں اس کی کم ہی چل رہی ہے۔ اس کے باوجود وہ کردوں کو کمزور پڑتا دیکھ کر خوش ہے، جس سے انہیں مستقبل میں آزادی کا مطالبہ چھوڑ کر متحدہ شام کے کسی منصوبے کا حصہ بننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس نے مشرقی کرد علاقوں سے کچھ جنگجوؤں کو عفرین میں داخل ہونے دیا ہے، مگر یہ سخت کنٹرول کے ساتھ اور حلب کے بڑے علاقوں کو حکومتی فوجوں کے سپرد کر کے نکلنے کی قیمت پر ہوا ہے۔آخری تجزیے میں یہ قوتیں آپس میں جتنا بھی لڑیں، کرد تحریک کو کچلنا ان کے مشترک طبقاتی مفاد میں ہے، اس کی تمام تر جمہوری حاصلات کے باوجود، جو خود خطے میں ان کے اپنی حکمرانی کے منصوبوں کی نفی کرتا ہے۔ انتہائی رجعتی جہادی عناصر کو استعمال کرنا بھی کوئی مسئلہ نہیں(کسی بھی فریق کے لیے) جب تک کہ حکمران طبقات کے تنگ نظر مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔اردگان اس بات کا برملا اظہار کرتا ہے کہ وہ کردوں کے قبضے میں موجود شام کے علاقوں کو کچل دینا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک آزادی کی ہلکی سی جھلک بھی خطرناک ہے جو ترکی کے کرد علاقوں میں پھیل سکتی ہے، جہاں لاکھوں مظلوم کرد موجود ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(HDP) کی شکل میں کردوں کی تحریک ترکی میں ابھرتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کے پہلے مرحلے کا مرکز تھی۔ پیپلز ریپبلکن پارٹی(CHP) کی انتہائی گھٹیا اور وفادار اپوزیشن کی مدد سے اردگان کردوں کے خلاف شدت پسند قوم پرستانہ ہیجان ابھارنے میں کامیاب رہا جس سے اس نے ترک معاشرے کے رجعتی ترین حصوں کی حمایت حاصل کر لی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پچھلے سال کے آئینی ریفرینڈم سے پتہ چلتا ہے کہ روایتی حلقوں میں اردگان کی مقبولیت روز بروز گرتی جا رہی ہے اور عفرین پر حملہ اردگان کی AKP کے لیے آنے والے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس سب کے ساتھ ساتھ عفرین پر حملہ اردگان کے شام کے شمالی حصوں پر قبضہ کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے جسے وہ ایک دروازے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں ترکی کا اثر و رسوخ گہرائی تک لیجانا چاہتا ہے۔ بلا شبہ عفرین سے فوجوں کے انخلا کے بعد روایات عثمانیہ کی پاسداری کرتے ہوئے اردگان لاکھوں عرب شامی پناہ گزینوں کو عفرین میں لانے کی کوشش کرے گا تاکہ نسلی طور پر کردوں کا صفایا کرتے ہوئے ایک سنی عرب حفاظتی علاقہ تشکیل دے جو شام اور اس سے باہر اس کا اثر و رسوخ بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکے۔عفرین کے فوری بعد اردگان کا منبج پر قبضہ کرنے کا ارادہ ہے اور ترکوں کے مطابق امریکہ اس ضمن میں ان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ مزید آگے چل کر دریائے فرات کے مشرق میں واقع کرد علاقوں اور اس کے ساتھ ساتھ شمالی ایران کے کوہ سنجار کے علاقوں کو لے کر بھی ایسے ہی منصوبے بن رہے ہیں۔ یہ سب مستقبل میں AKP کے حلب، موصل، اربیل اور کرکوک کے شہروں پر قبضہ کرنے کے خلافت عثمانیہ کے احیا کے خوابوں کی تکمیل کی بنیاد فراہم کرے گا۔امریکہ اصولی طور پر ترکی کے منصوبوں کے خلاف نہیں ہے۔ امریکی سامراج کرد فوجوں کو سودے بازی کے لیے استعمال کر رہا ہے تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی برتری قائم رکھ سکے۔ امریکی انتظامیہ نے یہ واضح کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے کہ کردوں کے ساتھ اتحاد محض وقتی ہے۔ آخر ترکی، جو NATO کا کلیدی رکن اور مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی صنعتی قوت ہے، امریکی سرمایہ داری کے لیے کرد لوگوں کے مقدر سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ حقیقت کہ مغربی میڈیا کے کچھ حصے اچانک عفرین میں ’’باغیوں‘‘ کے مظالم کے خلاف جاگ اٹھے ہیں، سوائے کردوں کی حالت زار کو استعمال کرتے ہوئے ترکی سے اپنے لیے مراعات حاصل کرنے کی خود غرض کوشش کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ہر طرف سے محصور ہونے اور کسی کے مدد کو نہ آنے کی وجہ سے کرد لیڈروں نے اپنی قوتیں بچانے کے لیے عفرین سے انخلا کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے قابض فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ کے ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ خالصتاً فوجی نقطہ نظر اور طاقتور ترک فوج اور جہادی گروہوں سے براہ راست تصادم کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید ان کے پاس یہ واحد راستہ بچتا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کرد لوگ قطعی طور پر خطے میں دندناتی کسی بھی بڑی قوت پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ہم نے کئی جگہ وضاحت کی ہے کہ ’’چھوٹی‘‘ قومیں بڑی قوتوں کی کشمکش اور کھیلوں میں محض ایک چھوٹی سی تبدیلی ہوا کرتی ہیں۔ انہیں استعمال کرنے کے بعد ان کو کچلنے میں یا کسی اور کو ایسا کرنے دینے میں انہیں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔دوسری جانب خطے کے مظلوم محنت کشوں اور نوجوانوں کی شکل میں کردوں کے بہت سے اتحادی موجود ہیں۔ روجاوا انقلاب ابتدائی شامی انقلاب کے طور پر سامنے آیا تھا اور یہ اپنے انقلابی اور جمہوری طریقہ کار کی وجہ سے کامیاب ہوا، جس نے خطے کے محنت کشوں اور غریبوں کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا۔ یہ کرد آزادی کی جدوجہد کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ایران میں، جہاں عوام انقلابی راستے پر متحرک ہورہے ہیں، آنے والے وقتوں میں کردوں کے لیے راستہ کھلا ہے کہ وہ ایرانی عوام کے ساتھ مل کر ملاّ حکومت کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنا لیں۔ اسی طرح عراق میں بھی کردوں کی آزادی کے واضح پروگرام کے ساتھ بائیں بازو کی ایک ریڈیکل تحریک کے بڑھنے اور پھیلنے کے بڑے امکانات موجود ہیں۔ پہلے کردوں میں جو غدار بارزانی اور طالبانی کے نیم قبائلی راج سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی مرکزی حکومت سے، اور اس کے بعد عراقی محنت کشوں اور نوجوانوں میں جنہیں ابھی بغداد میں حکومت سنبھالے فرقہ پرستوں اور بدعنوان غنڈوں میں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ترکی میں کرد تحریک کو ریڈیکل اور حکومت مخالف ہونے کی وجہ سے پذیرائی ملی، صرف کردوں میں نہیں بلکہ طبقاتی بنیادوں پر قومی حدود سے باہر بھی۔ جیسے جیسے ترکی کی معیشت زوال کا شکار ہو رہی ہے، ویسے ہی طبقاتی جدوجہد میں بھی تیزی آ رہی ہے اور اردگان کی حکومت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ آنے والا وقت ترکی کے محنت کش طبقے سے ان کی اپنے استحصالی قوتوں کے خلاف کھڑے ہونے کی اپیل کرنے کے لیے نہایت موزوں ہو گا۔کچھ حالات میں گوریلا حربے ضروری ہو سکتے ہیں، لیکن یہ صرف ایک مشترکہ طبقاتی جدوجہد کے معاون کی طور پر ہی کارآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت اردگان کی حکومت کا بنیادی ستون محض اس کا قوم پرستانہ ہیجان پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ نام نہاد حزب اختلاف کی مدد سے وہ طبقاتی جدوجہد سے بچتے ہوئے ترکی کے محنت کشوں کے ایک حصے کی حمایت حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب ہے۔ ترکی کے حکمران طبقے کے خلاف لڑتی ہوئی تمام انقلابی قوتوں کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اس غیر فطری اتحاد کو توڑیں، جو نہ صرف کردوں پر ظلم و ستم کا باعث ہے بلکہ ترکی کے محنت کش طبقے کا بھی استحصال کر رہا ہے جن کے حالات زندگی کی اہمیت کو ’’قومی سلامتی‘‘ اور ’’یکجہتی‘‘ کے نام پر ترک سرمایہ دار پس پشت ڈال رہے ہیں۔ہم پورے دل و جان سے کردوں کی اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق رہنے اور اپنی سرزمین حاصل کرنے کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ان کی جدوجہد بھی بالکل باقی دنیا کے محنت کشوں اور نوجوان کی سرمایہ دار طبقے کے خلاف جدوجہد کی طرح ہی ہے۔ وہی لوگ جو ایک وسیع اکثریت پر کٹوتیاں لگا رہے ہیں اور ان کے معیار زندگی پر حملے کر رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے لیے دولت کے انبار اکٹھے کر رہے ہیں، وہی لوگ مشرق وسطیٰ کی تہذیب یافتہ زندگی کی تباہی کے بھی ذمہ دار ہیں اور کردوں کے حق خودارادیت کے مطالبات پر حملہ کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔ واحد حل یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے نمائندہ حکمران طبقے کے خلاف ناقابلِ مصالحت جدوجہد کی جائے۔